بچوں میں کووڈ 19 سے ایک سنگین بیماری کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف
اٹلی کے ڈاکٹروں نے ایک سنگین مگر بہت کم سامنے والے ایک سینڈروم کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے جس کا تعلق کوورنا وائرس سے جوڑا جارہا ہے۔
طبی جریدے دی لانیسٹ میں شائع ایک تحقیق میں اٹلی کے صوبے بیرگامو میں اس پراسرار بیماری کے کیسز کی تعداد میں 30 گنا اضافہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد دریافت کیا گیا۔
اس سینڈروم کو اکثر ملٹی سسٹم انفلیمیٹری سینڈروم کہا جاتا ہے جو کہ بچوں کے ایک اور عارضے کاواساکی (پانچ سال سے کم عمر بچوں، درد شکم، ہتھیلیوں اور پاؤں سے کھرنڈ اترنا وغیرہ) سے مماثلت رکھتا ہے۔
اس بیماری میں خون کی شریانوں میں ورم پھیلتا ہے اور دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس نئے سینڈروم میں بھی ورم نظر آتا ہے مگر وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کاواساکی امراض سے مختلف ہے، مسلسل بخار، آنکھوں میں سرخی، ورم، ریش اور ایک یا زیادہ اعضا کے افعال میں کمی اس کی علامات ہیں۔
ہاسپٹل پاپا گیوونی XXIII کی اس تحقیق میں سائنسدانوں نے ان بچوں کے کیسز کو دیکھا جن میں کاواساکی اور کاواساکی جیسے نئے مرض کی تشخیص یکم جنوری 2015 سے 20 اپریل 2020 کے دوران اس ہسپتال میں ہوئی۔
محققین نے دریافت کیا کہ یکم جنوری سے فروری کے وسط تک صرف 19 بچوں میں اس طرح کے امراض کی تشخیص ہوئی تھی مگر 17 مارچ سے 14 اپریل کے دوران 10 کیسز سامنے آچکے ہیں۔
یعنی اس خطے میں کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد بچوں میں اس بیماری کے کیسز کی شرح میں 30 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
ان 10 میں سے 8 بچوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اور باقی 2 کے حوالے سے بھی محققین کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ٹیسٹ کے نتائج درست نہ ہو۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی وبا سے پہلے اور بعد میں بچوں میں اس بیماری کے کیسز میں کچھ فرق بھی دیکھا ہے۔
کووڈ 19 کی وبا کے بعد ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد میں زیادہ شدید علامات سامنے آئیں جبکہ 10 میں سسے 6 میں دل کی پیچیدگیوں دیکھی گئیں، جو وبا سے قبل 19 میں سے صرف 2 بچوں میں نظر آئی تھیں۔
نئے مریضوں میں سے 50 فیصد میں کاواساکی شاک سینڈروم کی علامات بھی نظر آئیں جو ڈاکٹروں وبا سے قبل کے کیسز میں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔
ایک اور فرق عمر کا ہے، اب جو بچے اس سینڈروم کا شکار ہورہے ہیں ان کی اوسط عمر ساڑھے 7 سال ہے جبکہ وبا سے قبل ایسے مریضوں کی اوسط عمر 3 سال تھی۔
یہ تحقیق محدود پیمانے پر ہوئی یعنی اٹلی کے ایک صوبے کے ایک ہسپتال میں، اس حوالے سے مزید ممالک میں تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ دنیا کے کونسے حصوں میں بچوں میں یہ مسئلہ سامنے آیاا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر کورونا کی وبا کے بعد کیسز کی تعداد میں اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیماری سنگین ہوسکتی ہے اور اس کو قابو میں لانے کے لیے جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت ہوسکتی ہے، کاواساکی اور اس سے ملتے جلتے سینڈرومز کی وجوہات پر مزید تحقیق میں وائرس کے نتیجے میں مدافعتی ردعمل پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
اسی طرح کے نتائج امریکا اور برطانیہ میں بھی سامنے آئے ہیں۔
امریکا میں کم از کم 150 بچوں میں اس بیماری کی تصدیق ہوچکی ہے اور ایسے زیادہ تر کیسز نیویارک میں سامنے آئے مگر 17 ریاستوں میں اب مشتبہ کیسز کو چیک کیا جارہا ہے۔
اسی طرح ساؤتھ ایسٹ انگلینڈ میں بھی بچوں میں اس طرح کے سینڈروم کو دیکھا گیا ہے اور لندن کے ایک ہسپتال میں 50 سے زائد کیسز آئے ہیں، جن میں سے بہت کم میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، مگر ان میں سے بیشتر میں کووڈ 19 اینٹی باڈیز ٹیسٹ پازیٹو رہا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ بچے اس وائرس سے متاثر رہے ہیں۔
ایولینا لندن چلڈرنز ہاسپٹل میں بچوں کے وبائی امراض کی ماہر ڈاکٹر جولیا کینی نے کہا کہ ان بچوں میں کارڈک علامات بھی نظر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نئے سینڈروم کی شناخت گزشتہ 4 ہفتوں میں ہوئی ہے اور اس کے طریقہ کار اور علاج کے بارے میں مزید جاننا بہت ضروری ہے اور یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس بیماری کا میکنزم کووڈ 19 سے کیسے جڑ گیا۔
تاہم اٹلی میں ہونے والی تحقیق میں شامل طبی ماہرین سمیت دنیا بھر میں ماہرین نے زور دیا ہے کہ یہ بیماری کبھی کبھار ہی ہوتی ہے اور نیا نوول کورونا وائرس بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں بہت کم متاثر کرتا ہے، درحقیقت بچوں میں کووڈ 19 کی علامات عموماً معملی ہوتی ہیں۔
بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹر جیفری برنز نے بتایا کہ یہ نیا سینڈروم بچوں پوسٹ وائرل سینڈروم نظر آتا ہے، یعنی یہ براہ راست وائرس کا نتیجہ نہیں بلکہ وائرس پر مریض کے مدافعتی ردعمل کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سینڈروم کے شکار بیشتر بچوں پر سنگین اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ انہیں آئی سی یو میں علاج کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، مگر اب تک کچھ ہلاکتیں ہوچکی ہیں تو آزمودہ علاج کو استعمال کیا جانا چاہیے۔
ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ سینڈروم بہت کم بچوں کو ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے کیسز بڑھنے سے اس کے شکار بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔