افغان فورسز کے حملوں کا جواب دینے کیلئے مکمل تیار ہیں، طالبان
افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے اعلان کے بعد طالبان نے بھی کہا ہے کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مسلح دہشت گرد گروپوں کے حملے میں خواتین اور نومولود بچوں کی موت کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اپنی فوج کو دہشت گرد گروپوں کے خلاف جارحانہ انداز میں کارروائی کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: افغانستان: میٹرنٹی ہوم اور جنازے میں حملوں سے درجنوں افراد ہلاک
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اشرف غنی نے منگل کو ٹی وی پر صدارتی خطاب میں کہا کہ میں اپنی سیکیورٹی فورسز کو حکم دیتا ہوں کہ وہ دفاعی انداز کے بجائے اب ہمارے دشمنوں کے خلاف جارحانہ انداز میں کارروائیاں شروع کردیں۔
یاد رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے یہ حکم اس وقت دیا جب منگل کو دارالحکومت کابل میں مسلح دہشت گردوں نے میٹرنٹی ہسپتال پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں نرسوں، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں سمیت کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حملے کے فوری بعد داعش نے ایک جنازے میں خودکش حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اشرف غنی نے کہا کہ آج طالبان اور داعش نے ملک میں دیگر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ کابل میں ہسپتال اور ننگرہار میں جنازے کو نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں افغان فوج کے 13 اہلکار ہلاک
انہوں نے کہا تھا کہ اب تک افغان امن عمل کے تحت طالبان سے مذاکرات یقینی بنانے کے لیے ہم نے دفاعی حکمت عملی اپنائی ہوئی تھی لیکن طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے حملوں سے ملک، اس کے عوام اور املاک کے تحفظ اور دفاع کے لیے اب جارحانہ کارروائیوں کی ضرورت ہے۔
اشرف غنی کے اس بیان کے بعد طالبان نے بھی بدھ کو جاری بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے حملوں کو روکنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
طالبان نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے جاری بیان میں کہا ہے کہ اب پرتشدد واقعات میں اضافے اور اس کے اثرات کی برابر ذمے داری کابل انتظامیہ پر بھی عائد ہو گی۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں داعش جنوبی ایشیا کے سربراہ سمیت 3 خطرناک دہشت گرد گرفتار
ادھر افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کے مشیر حمداللہ موہب نے حالیہ حملوں کے بعد افغان امن مذاکرات مزید جاری نہ رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب طالبان سے امن مذاکرات کے حوالے سے بات کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
طالبان اور داعش کے حملوں، خصوصاً جنازے اور میٹرنٹی ہسپتال پر حملے کے بعد افغان امن مذاکرات اور ملک میں امن کے قیام کا خواب ایک مرتبہ پھر پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے بھی ان حملوں کو افغان امن عمل پر کاری ضرب قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہم ان ہولناک دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یہ بات بھی دیکھ رہے ہیں کہ طالبان نے ان حملوں کی ذمے داری لینے سے انکار کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اور افغان حکومت کو مل کر ان حملوں کے ذمے داران کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر کڑی سزا دینی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی طالبان کو پرتشدد واقعات نہ روکنے پر جوابی کارروائی کی دھمکی
افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت دونوں کی جانب سے جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے کے اعلان کے بعد افغانستان میں قیام امن ایک مرتبہ پھر خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور قیدیوں کے تبادلے کے بدلے کابل انتظامیہ سے امن مذاکرات شروع کریں گے۔
اس کے بدلے امریکا اور غیر ملکی افواج نے 14 ماہ میں افغان سرزمین چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار
طالبان اور امریکا میں معاہدہ ہوا تھا کہ امریکی افواج طالبان پر حملہ نہیں کریں گی لیکن اگر افغان فورسز پر حملہ کیا گیا تو وہ طالبان پر حملے کا حق رکھتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملوں میں نمایاں کمی آئی لیکن حالیہ عرصے میں طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اوسطاً روزانہ 55 حملے کیے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا
دوسری جانب دونوں فریقین میں قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بھی التوا کا شکار ہے کیونکہ افغان صدر اشرف غنی ایک ساتھ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کو تیار نہیں۔
اب تک افغان حکومت ایک ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے جبکہ اس کے جواب میں طالبان نے 100 حکومتی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔