• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

’شہباز شریف کے ملازمین کے نام پر بنی کمپنیوں سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے ثبوت ملے ہیں‘

شائع May 13, 2020
شہباز شریف کے 10 سال دورِ اقتدار کے دوران ان کے خاندان کے اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا—تصویر:ڈان نیوز
شہباز شریف کے 10 سال دورِ اقتدار کے دوران ان کے خاندان کے اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا—تصویر:ڈان نیوز

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شریف خاندان کے ملازمین کے ناموں پر کمپنیاں اور اکاؤنٹس بنائے گئے جس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے ثبوت ملے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ایک کمپنی کے بارے میں بات کرنے جارہا ہوں جہاں سے ڈائریکٹ کک بیکس اور کمیشن کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں جس میں بینکنگ ٹرانزیکشنز اور دستاویزی ثبوت شامل ہیں اب چاہے یہ میں نہ مانوں کی جتنی بھی رٹ لگالیں اس سے بچنا ان کے لیے ممکن نہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ ابھی تک قومی احتساب بیورو (نیب) نے پنجاب میں شہباز شریف کے 10 سال دورِ اقتدار کے دوران کچھ ایس ٹی آرز پر تحقیقات کیں جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے خاندان کے اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور یہ ساری کمپنیاں 2007 کے بعد بنائی گئیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ اثاثوں میں اس تیزی سے اضافے کے پیچھے جو ذرائع ہیں وہ غیر ملکی ٹی ٹیز ہیں اور ان ٹی ٹیز بھیجنے والوں میں منظور پاپڑ والا، محبوب علی اخبار فروش اور رمیز شاہد سیلز مین جیسے غریب افراد شامل ہیں جنہوں نے شاید پنجاب سے کبھی قدم بھی باہر نہ رکھا ہو اور وہ انہیں لندن اور دبئی سے لاکھوں ڈالرز کی ٹی ٹیز بھیجتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہزاد اکبر کا شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب دینے کا مطالبہ

انہوں نے بتایا کہ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہاں سے ہی کالا دھن ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے باہر بھجوایا جاتا تھا اور پھر اسے ٹی ٹیز کے ذریعے سفید کر کے کاروباری اثاثوں میں شامل کیا جاتا تھا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے علم ہوا کہ جی این سی ایک فرنٹ کاغذی کمپنی تھی جس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی وہ پیسے اس میں جمع کروائے گئے اور یہیں سے کیش کی صورت نکال کر ان کے مختلف منصوبوں میں بھی لگائے گئے اور ذاتی اکاؤنٹ میں بھی جمع کروائے گئے۔

ان کے مطابق اس کمپنی کو 2 فرنٹ مین نثار احمد گل اور علی احمد چلاتے تھے دونوں اشخاص سلمان شہباز کے دوست اور کلاس فیلوز بھی رہ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف شہباز شریف کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کے معاملات کا میں ذمہ دار نہیں ہوں تو ایک جانب آپ کے بچوں کے دوست فرنٹ کمپنیاں چلاتے ہیں جن سے ٹرانزیکشنز بھی ہورہی ہیں اور انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس میں اہم سرکاری عہدے بھی دیے ہوئے تھے جس میں ایک ڈائریکٹر پولیٹکل افیئرز تھا اور ایک ڈائریکٹر پالیسی تھا۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر کا شہباز شریف کے خلاف ثبوت منظر عام پر لانے کا عندیہ

معاون خصوصی نے کہا کہ شہباز شریف کے خاندان کی فرنٹ کمپنیوں کا پورا نیٹ ورک ہے جس میں درجنوں ایسی کمپنیز کی نشاندہی ہوئی جو ان کے بچوں کی کمپنیوں کے ملازمین کے ناموں پر بنائی گئیں جن میں اربوں روپے ڈالے گئے اور کیش کی صورت نکالے گئے یا ان سے ٹی ٹیز کروائی گئیں یا مختلف اثاثے بنائے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف سے پہلے بھی 18 سوال پوچھے جن کے جوابات نہیں ملے لہٰذا میں اب 10 سوال پوچھ رہا ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شریف فیڈ مل کے ملازم راشد کرامت مسیح کے نام پر نثار ٹریڈنگ کمپنی قائم کی گئی جس میں 42 کروڑ 50 لاکھ روپے آئے اور یہاں سے نکالے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پھر رمضان شوگر ملز کے ملازم شکیل احمد کے والد گلزار احمد کے نام پر خان ٹریڈنگ کمپنی قائم کی گئی اور اس میں 45 کروڑ روپے ڈال کر نکالے گئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح چنیوٹ پاور ملز کے ملازم خضر حیات مظہر کے نام پر حیات ٹریڈنگ کمپنی قائم کی گئی جس میں ایک ارب 14 کروڑ روپے جمع کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول ’ان ٹچ‘ نہیں کہ کوئی ادارہ انہیں طلب نہیں کرسکتا، شہزاد اکبر

مزید یہ کہ رمضان شوگر ملز کے ملازم توقیر الدین اسلم کے نام پر فائن اور نیو سپر ٹریڈنگ کے نام سے کمپنی قائم کی گئی جس میں 47 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ علاوہ ازیں شہباز شریف گروپ ہیڈ آفس ماڈل ٹاؤن کے چپڑاسی ملک مقصود احمد کے نام پر مقصود اینڈ کمپنی قائم کی گئی جس میں ایک ارب 5 کروڑ روپے منتقل کیے گئے۔

اسی طرح رمضان شوگر مل کے ملازم اظہر عباس کے نام پر ایک بے نامی بینک اکاؤنٹ کھلوایا گیا جس میں 35 کروڑ روپے کی رقم جمع کی گئی اور بعد میں نکلوا بھی لی گئی۔

معاون خصوصی نے دعویٰ کیا کہ رمضان شوگر ملز کے ہی ایک اور ملازم محمد انور کے نام پر اکاؤنٹ بنا کر 48 کروڑ روپے اس میں منتقل کیے گئے، غلام شبیر نامی ملازم کے نام پر بے نامی اکاؤنٹ بنایا گیا جس میں 50 کروڑ 70 لاکھ روپے جمع کروائے گئے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ رمضان شوگر ملز کے ہی ایک اور ملازم تنویرالحق کے نام پر بے نامی اکاؤنٹ بنایا گیا جس میں 21 کروڑ روپے جمع کروائے گئے، چنیوٹ پاور مل جو ایک آئی پی پی ہے اس کے ملازم اقرار حسین کے نام پر بنائے گئے بے نامی اکاؤنٹ میں 64 کروڑ روپے جمع کروائے گئے۔

مزید پڑھیں: ٹیکس کے تمام معاملات نیب نہیں ایف بی آر دیکھے گا، شہزاد اکبر

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ان تمام ٹرانزیکشن کی مجموعی رقم تقریباً 17 ارب 40 کروڑ روپے ہیں اور جن ملازموں کے ناموں پر یہ سب کیا گیا وہ 17 ہزار روپے سے 70 ہزار روپے ماہانہ پر شریف گروپ میں ملازم تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ شریف گروپ شہباز شریف کے خاندان کا ہے اور یہ تمام کمپنیاں 2007 کے بعد قائم کی گئیں صرف رمضان شوگر ملز جو خاندانی تصفیے کے بعد شہباز شریف کے حصے میں آئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اولڈ ایج بینفشریز کے ڈیٹا کے مطابق یہ سب ان کمپنیوں کے ملازم ہیں جن کے اکاؤنٹس یا ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئیں جن کے جواب سے آپ کترا نہی سکتے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ میں ان سے 10 سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ کی ایک فرنٹ کمپنی راشد کرامت ولد کرامت مسیح لاہور کی کچی آبادی مکہ کالونی واقع گلبرگ میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر اور شریف فیڈ ملز میں 18 ہزار روپے ماہوار پر ملازم ہے اس کے اکاؤنٹ میں 45 کروڑ روپے کی خطیر رقم کس ذرائع آمدن سے منتقل ہوئی؟

شہزاد اکبر نے سوال کیا کہ شہباز شریف آپ کہتے تھے کہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوگئی تو آپ رضاکارانہ طور پر سیاست سے دستبردار ہو کر قانون کے حوالے کردیں گے تو نثار ٹریڈنگ کمپنی میں مختلف ٹریڈرز اور بلڈرز کی جانب سے کی گئی 20 ٹرانزیکشنز کی کس طرح تردید کریں گے جو وہاں سے نکل کر آپ کے اکاؤنٹ میں بھی جمع ہوئے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024