• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ڈاکٹر عبدالقدیر کی نقل وحرکت سے متعلق کیس، حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا مسترد

شائع May 12, 2020
سپریم کورٹ نے سفری پابندیوں سے متعلق کیس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عدالت آنے کی اجازت دے دی۔ فائل فوٹو:اے ایف پی
سپریم کورٹ نے سفری پابندیوں سے متعلق کیس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عدالت آنے کی اجازت دے دی۔ فائل فوٹو:اے ایف پی

ملک کے معروف جوہری سائنس دان ڈاکڑ عبدالقدیر خان کی جانب سے ان کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر حکومت کی ان کیمرا سماعت کی استدعا کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔

سپریم کورٹ نے سفری پابندیوں سے متعلق کیس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عدالت آنے کی اجازت بھی دے دی۔

عدالت عظمیٰ میں سفری پابندیوں کے خلاف ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی درخواست پر جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے ڈاکٹر صاحب سے ایٹم بم کا فارمولہ نہیں پوچھنا، وکلا کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے ہیرو کا تمسخر نہ بنائیں‘۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے حقوق کو غیر مناسب فورمز پر لے جا کر کیوں اپنا حق ضائع کر رہے ہیں؟

مزید پڑھیں: ڈاکٹر عبدالقدیر نے نقل و حرکت پر پابندی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

سماعت کے آغاز پر ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے وکیل نے دلائل دیے کہ ان کے موکل کو آج عدالت نہیں آنے دیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ عدالت آنا ان کے موکل کا بنیادی حق ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے عدالت آنے سے مسائل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بہتر ہے عدالت ان کیمرا سماعت رکھ لے جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ سماعت ان کیمرا کی جائے۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی قوم کے لیے خدمات کو تسلیم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کی رضامندی سے 2009 میں فیصلہ دیا، جسے 10 سال تک کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اب لاہور ہائی کورٹ میں نئی درخواست دائر کردی، اگر سپریم کورٹ معاملے میں براہ راست مداخلت کرے تو کیا یہ مناسب ہو گا؟

انہوں نے استفسار کیا کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسلام آباد ہائیکورٹ دوبارہ کیوں نہیں گئے؟

اس پر ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے وکیل نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے میں سپریم کورٹ براہ راست مداخلت کر سکتی ہے۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ’عدالت سے غیر مناسب حکم کے لیے اصرار نہ کریں، درخواست پر اپنے موکل سے مشاورت کر کے مؤقف بتا دیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹرعبدالقدیر کی نقل و حرکت پر پابندی کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا اعتراض

بعد ازاں عدالت نے درخواست پر سماعت 13 مئی تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک بھر میں آزادانہ نقل و حرکت سمیت ان کے بنیادی حقوق پر عمل درآمد کے لیے 23 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔

ایڈووکیٹ زبیر افضل رانا کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق، معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند پر کم یا سلب نہیں کیے جاسکتے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی جس میں ان کی اسی طرح کی ایک درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے ریاست کی جانب سے خصوصی سیکیورٹی اقدامات کا معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں۔

درخواست میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا سرکاری عہدیداروں کو درخواست گزار، ان کے قریبی اور عزیز لوگوں، ملازمین، اہل خانہ، دوستوں، صحافیوں، مختلف کالجوں، یونیورسٹی کے اساتذہ، اعلیٰ حکام اور بیورو کریٹس سے ملنے سے روکنے کے آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

مذکورہ درخواست میں یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس شکایت کے ازالے کے لیے درخواست گزار کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بنیادی مشورہ دینے کا جواز درست تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست کے مطابق انہیں سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورت حال درخواست گزار کو ورچوئل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی حکام کا یہ فعل غیر قانونی ہے کیونکہ ابھی تک میرے ساتھ ایسا سلوک رکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز کے اہلکاروں کی دوسری کوئی ذمہ داری نہیں لیکن مجھے اپنے گھر تک ہی محدود رکھ دیا گیا ہے جیسے میں قید تنہائی میں ہوں۔

ایٹمی سائنسدان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال جنوری 2004 میں شروع ہوئی جب انہیں سلامتی کے نام پر نظر بند کردیا گیا۔

انہوں نے درخواست میں کہا کہ انہیں کسی دوست تک رسائی نہیں تھی یہاں تک کہ وہ کچھ گھروں کے فاصلے پر رہنے والی بیٹی اور اس کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے تھے جبکہ بری صورتحال یہ تھی کہ انہیں عدالت تک بھی رسائی نہیں تھی۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے جوہری پروگرام کے علمبردار ہیں اور یہ ان امور سے وابستہ لوگوں کی انتھک محنت تھی کہ وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024