• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والی مارکیٹوں کو سیل کردیا جائے، چیئرمین کراچی تاجر اتحاد

شائع May 12, 2020
کراچی میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ایک مارکیٹ کا منظر—فوٹو: رائٹرز
کراچی میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ایک مارکیٹ کا منظر—فوٹو: رائٹرز

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے اختیار کرنے کے حوالے سے طے شدہ اسٹینڈر آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) پر عمل نہ کرنے والی مارکیٹس کو سیل کردیا جائے۔

نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین تاجر اتحاد نے کہا کہ ایس او پیز پر عمل نہیں ہوسکا اور یہ اُمید بھی نہیں تھی کہ ایسا ہوسکے گا۔

اس پر جب ان سے سوال کیا گیا کہ اُمید کیوں نہیں تھی تو عتیق میر کا کہنا تھا کہ اُمید اس لیے نہیں تھی کہ 2 ماہ کی بندش کے بعد لاک ڈاؤن نرم کیا گیا اور لوگوں کو کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی تو یہ ایسی صورتحال تھی جیسے شادی کے موقع پر کھانا کھلنے کی آواز آتی ہے اور افراتفری ہوتی ہے۔

چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد کا کہنا تھا کہ پہلے دن میں لوگ بڑے اشتیاق سے نکلے، ایک غیریقینی کیفیت اور جوش تھا اور پونا شہر امڈ آیا۔

مزید پڑھیں: سندھ میں چار دن کاروبار کھولنے کی اجازت، تین دن مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان

انہوں نے کہا کہ میری انتظامیہ سے بھی بات ہوئی چونکہ پہلا دن تھا اور ایک قید خانے کا دروازہ کھلا تو سارے باہر آگئے تاہم جنہوں نے سماجی دوری کا خیال کرنا تھا انہوں نے اس کی پاسداری کی۔

دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر سماجی دوری اور کورونا وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر کے تقاضے تاجر پورے نہیں کرتے تو جہاں اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے اسے سیل کردیں جبکہ جس مارکیٹ میں بے احتیاطی زیادہ ہے تو بے شک پوری مارکیٹ سیل کردیں۔

چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے عوام کو اور خود کو بچانا ہے، بےشک کاروبار بھی ایک ضرورت ہے اور معاشی موت بھی بڑی اذیت ناک ہے تاہم اگر ہم موقع ملنے کے باوجود اس پر عمل نہ کریں تو پھر ہمیں حق نہیں کہ کوئی سہولت مانگیں۔

عتیق میر کا کہنا تھا کہ ہمیں دکھ ہوگا اگر دوبارہ یہ سہولت واپس ہوگی، ہمیں آج انتظامیہ نے کہا کہ آپ اتنا بھی نہیں کرواسکے تاہم بہت سے مارکیٹوں میں اس کی پابندی بھی کی گئی اور ہم نے انتظامیہ کے افسران کو بھی دکھایا۔

انہوں نے کہا کہ بہت سی مارکیٹیں جو عید کی سیل کے حوالے سے مشہور ہیں خاص طور پر صدر کے علاقے میں وہاں بہت زیادہ ہجوم دیکھا گیا اور وہاں ایک جلوس کی صورتحال تھی جو افسوسناک ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چونکہ پہلا دن تھا لیکن ایک سے 2 دن میں لوگ معمول پر آئیں گے۔

انہوں نے درخواست کی کہ کاروبار کا دورانیہ تھوڑا بڑھا دینا چاہیے، افطار کے بعد بھی اگر لوگوں کو عید تک شاپنگ کی اجازت دی جائے تو ممکن ہے کہ انہیں سکون آجائے کہ عید تک وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عید میں تھوڑے دن موجود ہیں اور اگر ایسے میں آپ لوگوں کو 4 یا 5 بجے تک محدود کردیں گے تو ایسی ہی صورتحال ہوگی کیونکہ گرم موسم کی وجہ سے لوگ دوپہر میں نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔

اس موقع پر سندھ کے وزیر سعید غنی نے بھی کاروباری مراکز میں رش سے متعلق بات کی اور کہا کہ یہی وجہ سے ہم تھوڑا کترا رہے تھے اور کوشش کر رہے تھے کہ تاجر اس بات کو سمجھیں تاہم ان کے بھی اپنے مسائل تھے۔

انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ بہت خطرناک بات ہے، تاجروں کو خیال کرنا چاہیے اور ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا چاہیے جبکہ شہریوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ یہ بندوق کی نوک پر نہیں کروایا جاسکتا۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ کیسز میں جس طرح اضافہ ہورہا ہے تو حالات اچھے نہیں ہے اور اسی طرح کی خلاف ورزی ہوئی تو مجھے آگے حالات بہت خراب نظر آرہے ہیں۔

کاروبار کے اوقات بڑھانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ جب ہم نے مراکز بند کرنا شروع کیے تھے تو کریانے کی دکانیں، میڈیکل اسٹورز وغیرہ کو 24 گھنٹے کھلا رکھا تھا لیکن اس سے یہ ہورہا تھا کہ لوگ کوئی نہ کوئی جواز بنا کر باہر نکل رہے تھے، ہم اگر وقت کی پابندی لگا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ 8 سے 9 گھنٹے کا لاک ڈاؤن ہوجائے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہم 24 گھنٹے کاروبار کی اجازت دے دیں تو پھر دن کی روشنی میں 2 فیصد لوگ بھی نہ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہوگا، ساتھ ہی سمجھنا ہوگا کہ یہ ان کی اپنی جان کے لیے ضروری ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ شاید معاملات ٹھیک ہوجائیں تاہم اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ خلاف ورزی کرنے والی دکانوں کو سیل کردیں۔

شاپنگ مالز کو نہ کھولنے سے متعلق سوال کے جواب پر سعید غنی کا کہنا تھا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ان مالز اور پلازہ کو بند رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں کاروبار کے اوقات تبدیل کر دیے گئے

خیال رہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے 18 مارچ سے دکانیں بند ہوئی تھی جبکہ صوبے میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان 22 مارچ کو کیا گیا تھا۔

جس کے بعد ملک کے معاشی حب کراچی میں تمام چھوٹی اور بڑی مارکیٹیں، دکانیں بند تھیں تاہم 9 مئی سے ملک میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کے اعلان کے بعد تاجروں نے مارکیٹیں کھولنے سے متعلق وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی تھی۔

بعد ازاں 10 مئی کو وزیراعلیٰ سندھ اور تاجروں میں کامیاب مذاکرات کے بعد ہفتے میں 4 دن صبح 6 سے شام 5 تک کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی تھی تاہم شاپنگ مالز و پلازہ کی بندش برقرار رکھی گئی تھی۔

مارکیٹیں کھولنے کے پہلے ہی دن یعنی 11 مئی کو شہر بھر میں ٹریفک کی بدترین صورتحال اور مارکیٹوں میں بہت زیادہ رش دیکھنے میں آیا تھا اور سماجی دوری سمیت دیگر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اس وقت ملک میں 32 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ 706 اموات بھی ہوئی ہیں تاہم اس وبا سے اب تک سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہے جہاں کیسز کی تعداد 12 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور یہاں اموات 200 ہوگئی ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

TehMina Amir May 13, 2020 12:59am
Lockdown should be more strict , no leniency other wise it would be out of control. Penalties should be taken and also take help with Army to send them to their houses. Situation is going worst day by day and government is not taking it seriously.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024