وہ فقط ‘جیدی‘ نہیں، اور بھی بہت کچھ تھے
جس طرح ’اسم اعظم‘ جان کر خواہشوں کو قابو رکھنا نہایت مشکل ہے اور طاقتور کے لیے ظلم و زیادتی کرنے سے بچنا دشوار، اسی طرح مزاح نویس کا کسی کی توہین اور دل آزاری سے بچے رہنا بھی نفس کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ظرف ہی ہوتا ہے جو کسی بے پناہ قوت اور صلاحیت کو بے قابو نہیں ہونے دیتا۔ ایک ایسے ہی اعلیٰ ظرف والا آج ہمارے درمیان سے خاموشی کے ساتھ اُٹھ گیا۔
اطہر شاہ خان کے ساتھ ’جیدی‘ کا کردار ایسا جڑا کہ ان کی پوری شخصیت پر چھا کر انہیں ایک الگ ہی شخصیت بنا گیا۔ کم ہی تخلیق کار ہوں گے جنہیں ان کی تخلیق نے یوں گرفت میں لیا ہو۔ شاید میں غلط کہہ گیا، اطہر شاہ خان نے اپنی اس تخلیق کو یوں گلے سے لگایا تھا کہ وہ سارے کے سارے اس کے پیچھے چھپ گئے تھے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جس سماج میں لوگ کرائے کی دانش لیے دانشور بن بیٹھتے ہیں، لاعلمی پر بقراطی چولا پہنے گھومتے ہیں اور اپنے چھچھورپن کے ڈھیر کو متانت سے ڈھانپنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، وہاں ایک ذہین فطین لکھاری اور فنکار حماقت کا لبادہ پہنے ہمیں ہنساتا رہا۔
وہ قلم کار تھے، انہوں نے اداکاری کی، ڈرامے لکھے، فلمیں بنائیں، صداکاری کی، بطور شاعر خود کو منوایا، مگر ان کی یہ ساری جہتیں ظرافت کے رنگ سے رنگی رہیں۔
اگرچہ انہوں نے سنجیدہ ڈرامے بھی لکھے، مگر بحیثیت قلم کار ان کی پہچان معصومیت میں ڈوبی شگفتگی ہی رہی۔ آج جب نام نہاد اسٹیج ڈراموں اور پھر ٹی وی چینلوں کے ’المناک‘ مزاح کے باعث طنز و مزاح بھد اُڑانے، غلاظت میں لتھڑے فقرے اچھالنے، نقل اتارنے، سیاسی پروپیگنڈے اور انتقام لینے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے، ایسے میں اطہر شاہ خان جیدی جیسے حقیقی ظرافت نویس اور کامیڈین کی عظمت اور واضح ہوجاتی ہے جس نے اپنے الفاظ، انداز اور قلم کو کسی بھی قسم کے ابتذال اور گندگی سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔
وہ اسکرین پر آتے اور چہروں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی، گول مٹول چہرے پر پھیلی نامعقولیت اور ہونق پن، آنکھوں پر لگا بڑا سا اُلٹا چشمہ، کبھی چائے کے ساتھ کیلے کھاتے نظر آرہے ہیں، کبھی بچوں سی آواز میں احمقانہ مشورے دیتے پائے جارہے ہیں، لیکن کہیں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جسے نازیبا کہا جاسکے، ایک فقرہ بھی ایسا نہیں جو کسی رنگ، معذوری، پیشے کی ہتک سے لطف لے رہا ہو۔ وہ کسی کا دل دکھانے کی قیمت پر کسی کا دل لبھانے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دین مسکراہٹیں اور قہقہے ہیں، رنج اور ٹھیس نہیں۔
ہوسکتا ہے میری معلومات ناقص ہوں، پاکستانی شوبز پر لکھنے والے اور پاکستان میں اداکاری کی صنف پر گہری نظر رکھنے والے زیادہ جانتے ہوں گے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ’جیدی‘ جیسا دوسرا کردار نہیں، جو ایک ہی گیٹ اپ، انداز اور مخصوص طرزِ گفتگو کے ساتھ اتنا زیادہ آن ایئر آیا۔
یہی نہیں وہ جب جب اسکرین پر آیا دیکھنے والوں کو اپنا اسیر کرلیا۔ اس کے مقابلے میں صرف ’مولاجٹ‘ کے فلمی کردار کو پیش کیا جاسکتا ہے، مگر دونوں کرداروں میں زمین آسمان کا فرق ہونے کے ساتھ ’جیدی‘ کے کردار کی طوالت ’مولاجٹ‘ سے کہیں زیادہ ہے۔
’جیدی‘ کے ’جیدی‘ بن جانے کا سبب ’جیدی‘ کا کردار ہی بنا۔ میری اس پیچیدہ جملے کی تفصیل یہ ہے کہ جب اطہر شاہ خان نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سینٹر کے لیے اپنی پہلی ڈراما سیریل ’انتظار فرمائیے‘ تحریر کی تو اس میں شامل ’جیدی‘ کے نہایت احمق قسم کے کردار کے لیے اداکار دستیاب نہیں تھا، چنانچہ یہ سیریل شروع نہیں ہو پارہی تھی۔ آخر ممتاز براڈکاسٹر آغا ناصر کے مشورے سے اور ان کے اصرار پر اس کردار کے لیے خود اس کے خالق کو منتخب کر لیا گیا۔ یوں اطہر شاہ خان کے مکالموں اور اداکاری نے اس کردار کو امر کردیا۔
اگرچہ وہ خود کو ’سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان‘ کہلوانا پسند کرتے تھے، لیکن ’جیدی‘ تادمِ آخر ان کی شناخت بنا رہا۔ اطہر شاہ خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’جیدی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ اپنا مذاق اڑوانا تھا، آج کل کے فنکار اپنا مذاق نہیں اڑواتے، اپنا مذاق اڑوانے کے لیے بہت بڑا دل چاہیے، میں نے جیدی کے کردار میں اپنا خوب مذاق اڑوایا، اسی لیے وہ سب کو اچھا لگا، زیادہ تر مزاحیہ فنکار دوسروں کا مذاق بنانا پسند کرتے ہیں‘۔
کتنا بڑا انسان تھا وہ جو دوسروں کو ہنسانے کے لیے کسی اور کو نشانہ بنانے کے بجائے خود کو ہدف بنائے رہا۔
ان کے جادوئی قلم نے 750 ڈرامے اور 300 اسکرپٹ جنم دیے۔ ان کے تخلیق کردہ ٹی وی ڈراموں میں
- انتظار فرمائیے،
- ہیلو ہیلو،
- جانے دو،
- برگر فیملی،
- آشیانہ،
- آپ جناب،
- جیدی اِن ٹربل،
- پرابلم ہاﺅس،
- ہائے جیدی،
- کیسے کیسے خواب اور
- بااَدب باملاحظہ ہوشیار شگفتگی کے شاہکار ہیں۔
خاص طور پر ’باادب باملاحظہ ہوشیار‘ نے پاکستان کی تاریخ، حکومتوں کے اطوار اور سیاست پر وہ وہ چوٹ کی کہ حیرت ہوتی ہے اس زمانے میں اسے چلنے کیسے دیا گیا؟ پی ٹی وی کے لیے پہلی مزاحیہ سیریل ’لاکھوں میں تین‘ لکھنے کا اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہوا۔ یوں وہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے پہلے مزاحیہ ڈرامے کے خالق قرار پاتے ہیں۔
ان کا قلم قرطاس پر چلتا رہا، کبھی ڈرامے کی صورت ابھری تو کبھی لفظوں نے شاعری کا روپ دھارا اور کبھی کاغذ پر کسی فلم کا اسکرپٹ طلوع ہوا۔ بقول اطہر شاہ خان، ’قلم سے سوائے ازاربند ڈالنے کے سب کام کیے ہیں‘۔
ایک انٹرویو میں اپنی زود نویسی کی بابت انہوں نے کہا تھا، ’میں نے اتنے اسکرپٹ لکھے ہیں کہ اگر ترازو کی ایک جانب مجھے بٹھادیں اور دوسری جانب میرے لکھے ہوئے اسکرپٹس رکھ دیں، مجھے یقین ہے کہ اسکرپٹس کا وزن مجھ سے زیادہ ہوگا‘۔
برسوں خاموش رہ کر ہمیشہ کے لیے چپ کی چادر اوڑھ لینے والے اطہر شاہ خان یکم جنوری 1943ء کو بھارتی صوبے اترپردیش کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت میں تھے تو والدہ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ والد ریلوے میں ملازمت کرتے تھے، کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا، جس کے بعد ان کے بڑے بھائی سلیم شاہ خان نے صرف 18 سال کی عمر میں خاندان کی کفالت سنبھال لی۔
اطہر شاہ خان کے مطابق انہیں بچپن سے کتابوں سے عشق تھا۔ یہ کتب بینی کا شوق ہی تھا جس کے باعث تیسری جماعت ہی میں تھے کہ والدہ نے کتابوں کے عاشق بیٹے کو تحفے میں ’بانگِ درا‘ دی۔ انہوں نے صحافت میں ایم اے کیا اور پھر ہومیو پیتھی کے سند یافتہ ڈاکٹر بنے۔ لکھنے کا آغاز بچپن ہی میں ہوگیا تھا۔ بچوں کے مقبول رسالوں میں کہانیاں لکھیں اور طالب علمی کے دور میں مختصر دورانیے کے کچھ ڈرامے بھی تحریر کیے۔
اطہر شاہ خان کی بھاوج کی بہن ان کی اہلیہ بنیں، یوں 4 بیٹوں کی ولادت کے بعد ان کا خاندان مکمل ہوگیا۔ ایک بیٹی ہوئی جس کا صرف 7 ماہ کی عمر میں انتقال ہوگیا۔
انہوں نے کچھ عرصہ صحافت بھی کی اور روزنامہ ’امروز‘ اور ’ممتاز‘ کے لیے لکھتے رہے، مگر ڈرامے لکھنے اور اداکاری کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد صحافت سے ناتا ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ تاہم وہ مختلف اخبارات میں قطعہ نویسی کرتے اور کالم لکھتے رہے۔
انہوں نے بطور فلمی لکھاری بھی نام کمایا۔ ان کی پہلی تحریر کردہ فلم ’بازی‘ تھی، جس کی کاسٹ میں اپنے وقت کے مقبول ترین ہیرو محمد علی اور ندیم بھی شامل تھے۔ انہوں نے اردو کے ساتھ پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے، ’منجھی کتھدے ڈاہواں‘ جیسی مقبول فلم ان کے اسکرپٹ پر بنی تھی۔ اس کے ساتھ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری بھی کی اور ایک فلم ’آس پاس‘ کی ڈائریکشن بھی دی۔ ان کی تخلیق کردہ دیگر فلموں میں ’ماں بنی دلہن‘، ’گونج اٹھی شہنائی‘ اور ’جنگو‘ سرفہرست ہیں۔
اطہر شاہ خان نے جتنا لکھا اور جس معیار کا لکھا، پھر ڈرامانگاری سے اداکاری اور شاعری تک ان کی ہمہ جہت شخصیت، ان کے کردار، ڈراموں اور فلموں کی مقبولیت اس سب کے ساتھ وہ بولی وڈ یا ہولی وڈ میں ہوتے تو آج ہم ہی انہیں لیجنڈ لکھ رہے ہوتے اور ان کے انتقال کی خبر سن کر بہت سے لوگ یہ نہ پوچھتے ’اچھا وہ حیات تھے؟‘
دراصل جس کردار نے انہیں شہرت دی وہی انہیں کھا گیا۔ اطہر شاہ خان پر ’جیدی‘ نے یہ ستم ڈھایا کہ بہت سوں کو پتا ہی نہ چلا اور بہت سوں کو یاد ہی نہ رہا کہ اطہر شاہ خان صرف جیدی نہیں تھے، وہ اس کے علاوہ اور اس سے بڑھ کر بہت کچھ تھے۔
تبصرے (2) بند ہیں