دواسازوں کا بھارت سے ادویات کی درآمد پر تحقیقات کا مطالبہ
اسلام آباد: پاکستان ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن (پی وائے پی اے) نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو خط لکھ کر پابندی کے باوجود بھارت سے 450 سے زائد ادویات کی درآمد پر غور کرنے کی اپیل کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کو بتایا گیا تھا کہ کینسر کی ادویات کی کمی ہے لیکن سمری میں ’تھیراپیوٹک گڈز‘ (علاج کا سامان) کی اصطلاح شامل کی گئی تھی تاکہ ہر طرح کی دوائیں، وٹامنز، سرنجز اور یہاں تک کہ سرسوں کے تیل کی بھی اجازت دی جاسکے۔
اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ادویات کے اسکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: کورونا مریضوں پر بہتر نتائج دینے والی دوا کی پاکستان تیاری کیلئے بات چیت کا آغاز
انہوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ایسا کچھ ہوتا تو عمران خان فوراً حکومت کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کردیتے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے سکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومتی پابندی کے باوجود بھارت سے اربوں روپے کی ادویات کی درآمد کا ذمہ دار کون ہے، اس بات کا تعین کرنے کے لیے ایک پارلیمانی باڈی تشکیل دی جائے۔
خط میں پی وائے پی اے نے بتایا کہ 2019 کے وسط میں جب بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں بھارت نے ظلم و جبر کی تمام حدیں عبور کیں تو پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت پر پابندی عائد کردی تھی۔
تاہم ایک میڈیا مہم چلائی گئی تھی کہ زندگی بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہے کیونکہ بھارت سے اس کی درآمد روک دی گئی ہے۔
خط کے مطابق اس مہم کے تحت وفاقی حکومت کو کینسر کی ادویات وغیرہ کو بھارت سے درآمد کرنے کی اجازت دینے پر مجبور کیا گیا تھا تاہم جب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ذریعہ اس اجازت کی سمری وزارت تجارت کو بھیجی گئی تو اس میں زندگی بچانے والی ادویات کے بجائے علاج کا سامان کی اصطلاح کا استعمال کیا گیا تھا اور بھارت سے ہر طرح کی دوائیں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی اجازت دیدی
خط میں الزام لگایا گیا کہ اس سے قبل 8 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت کی ٹائیفائیڈ ویکسین بھی وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر اور تجارتی پابندی کے باوجود بھارت سے درآمد کی گئی تھی۔
اس خط میں کہا گیا کہ کابینہ نے پہلے بھی بھارت سے ڈینگی کی دوا درآمد کرنے سے انکار کردیا تھا۔
پی وائے پی اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فرقان ابراہیم نے انکوائری میں مدد کے لیے اپنی خدمات کی پیشکش بھی کی۔
ساتھ ہی خط میں پی وائے پی اے نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ حکومت نے ماسک برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی جبکہ کورونا وائرس کے باعث ملک کو اس کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
علاوہ ازیں خط میں دعویٰ کیا گیا کہ پوری قوم کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ماسک زیادہ نرخوں پر فروخت ہورہے ہیں۔