کورونا وائرس کی وبا کو قابو میں کرنے کا آسان نسخہ
سننے میں تو بہت حیران کن لگے گا مگر لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کا ایک سادہ حل سامنے آیا ہے اور وہ ہے ہمیشہ لوگوں کے درمیان سماجی دوری کا خیال اور سب سے اہم ماسک کا استعمال۔
جی ہاں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر آبادی کے 80 فیصد افراد ماسک کا استعمال کریں تو کورونا وائرس کے کیسز کی شرح میں کمی لانا ممکن ہے۔
امریکا میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق اگر 80 فیصد امریکی شہری فیس ماسک پہننے لگے تو کورونا وائرس کی شرح نیچے کی جانب جانے لگے گی۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈی کائی کی پیدائش امریکا میں ہوئی تھی مگر ان کے والدین چین سے یہاں آئے تھے اور انہوں نے کہا 'میں نے اس ملک کو دیکھا جہاں میں پلا بڑھا، جہاں میرا خاندان مقیم ہے، اسے وبا کا سامنا ہوا اور اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ ایک عام سی چیز یعنی ماسک پہننا اپنے ساتھ دیگر کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے'۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں فیس ماسک کا استعمال بہت عام ہے اور فضائی آلودگی سمیت دیگر مسائل سے تحفظ کے لیے انہیں پہنا جاتا ہے۔
اس تحقیق میں گزشتہ وبائی امراض جیسے ایبولا اور سارس کے ماڈلز کے ساتھ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا استعمال کرنے پر تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ ماسک نہ پہننے والے افراد کے ساتھ یہ وائرس کیسے کھیلتا ہے۔
محققین کے مطابق فیس ماسک استعمال نہ کرنے پر انفیکشنز کی شرح بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر سو فیصد افراد ماسک پہننا شروع کردیں تو بیماری کی شرح گر کر صفر تک بھی جاسکتی ہے۔
آسان الفاظ میں اگر وبا کو کنٹرول کرنا ہے تو 80 سے 90 فیصد افراد کو فیس ماسک کا استعمال کرنا ہوگا ورنہ یہ طریقہ کار زیادہ موثر ثابت نہیں ہوگا۔
محققین کا کہنا تھا 'اگر صرف 30 سے 40 فیصد افراد فیس ماسک استعمال کررہے یں، تو آپ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا'۔
انہوں نے ایک پیشگوئی کرنے والے کمپیوٹر ماڈل تیار کیا جسے ماسک سم سمولیٹر کا نام دیا گیا ، جس سے انہیں مختلف ممالک کے منظرنامے تشکیل دینے میں مدد ملی۔
یعنی ایسے ممالک جہاں فیس ماسک کا عام استعمال ہوتا ہے جیسے جاپان، ہانگ کانگ اور چین وغیرہ اور اس کا موازنہ ان ممالک سے کیا گیا جہاں عام طور پر یہ ماسک استعمال نہیں ہوتے، پھر دیکھا گیا کہ وہاں وبائی مرض کی شرح وقت کے ساتھ کیا رہی۔
تحقیق کے مطابق فیس ماسک کا استعمال بہت زیادہ کرنے والے ممالک میں سماجی دوری کی مشق کے ساتھ کورونا وائرس کے کیسز کی شرح کو قابو پانے میں مدد ملی جبکہ اس سے کاروباری سرگرمیوں کی بحالی اور لوگوں کو گھروں سے باہر جانے کا موقع بھی ملے گا۔
خیال رہے کہ کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں فیس ماسک کا استعمال ہر شہری پر لازمی قرار دیا گیا ہے مگر اس پر عملدرآمد بہت کم لوگ کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ اب پاکستان کے مختلف حصوں میں لاک ڈاؤن میں کسی حد تک نرمی لائی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں عوامی سرگرمیوں بھی اضافہ ہوگا۔
فیس ماسک کیوں ضروری ہے؟
اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو جان لیں کہ کورونا وائرس کے بیشتر کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں متاثرہ افراد میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا کئی دن بعد نظر آتی ہیں۔
مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی اس بیماری کو دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرسکتے ہیں، اب وہ کھانسی، چھینک کے ذرات سے براہ راست ہو یا ان ذرات سے آلودہ کسی ٹھوس چیز کو چھونے کے بعد ہاتھ کو ناک، منہ یا آنکھوں پر لگانے سے۔
ماہرین کے مطابق یہ واضح ہوچکا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے پر فیس ماسک کے استعمال سے چین، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر ممالک میں کیسز کی شرح میں کمی لانے میں مدد ملی۔
درحقیقت فیس ماسک سے صرف آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو بھی تحفظ ملتا ہے۔
منہ کو ڈھانپنا ایسی رکاوٹ کا کام کرتا ہے جو آپ کو اور دیگر کو وائرل اور بیکٹریل ذرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ بیشتر افراد لاعلمی میں دیگر افراد کو بیمار کردیتے ہیں یا کھانسی یا چیزوں کو چھو کر جراثیم پھیلا دیتے ہیں۔
امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہوں اور علامات محسوس نہ ہوں مگر پھر بھی آپ وائرس کی منتقلی میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک کا استعمال ایک اچھا خیال ہے۔
اگر کوئی چھینک دے تو ماسک سے تحفظ ملے گا؟
ہاں مگر ایسا اسی وقت ممکن ہوگا جب ماسک کو درست طریقے سے پہنا جائے اور پھر ہاتھوں سے چھونے سے گریز کیا جائے۔
کسی دوسرے فرد کی کھانسی یاچھینک سے خارج ہونے والے ذرات آپ کے چہرے پر منہ یا ناک کے بجائے ماسک سے ٹکرائیں گے جو کہ تحفظ فراہم کرے گا، مگر جب گھر واپس آکر ماسک کو اتاریں تو سامنے کے حصے کو ہاتھ لگانے کی بجائے کان پر موجود ڈوری سے اسے اتاریں۔
سامنے کے حصے کو چھونے سے ماسک پر موجود جراثیم ہاتھوں پر آجائیں گے جیسا آپ نیچے عالمی ادارہ صحت کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے ماسک کو اتارنا ہے۔
ماسک کے ساتھ آنکھوں کا تحفظ بھی اچھا خیال ہے جو لوگ نظر کا چشمہ استعمال کرتے ہیں انہیں کھانسی یا چھینک سے خارج ہونے والے ذرات سے کسی حد تک تحفظ مل جاتا ہے جبکہ دیگر افراد سن گلاسز کا استعمال کرسکتے ہیں، یہ دونوں مثالی تو نہیں مگر مددگار ضرور ثابت ہوسکتے ہیں۔
تو کیسا ماسک استعمال کیا جائے؟
سرجیکل اور این 95 ماسک بنیادی طور پر طبی عملے کے لیے ہوتے ہیں خصوصاً این 95 ماسک، جو کووڈ 19 کے مریضوں کے بہت قریب رہنے والے عملے کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں اور بنیادی طور پر آلہ تنفس ہیں جس سے ناک اور منہ ڈھانپ لیا جاتا ہے اور اس کے میٹریل سے ہوا صاف یا جراثیموں سے پاک ہوکر سانس میں جاتی ہے۔
سرجیکل ماسک کا مقصد عموماً مریضوں کو طبی عملے کے منہ سے خارج ہونے والے جراثیموں سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
جہاں عام افراد کی بات ہے تو عام کپڑے کے ماسک بھی تحفظ فراہم کرسکتے ہیں، کیونکہ سماجی دوری کی مشق کے ساتھ گھر میں یا کہیں سے بھی بنے کپڑے کے ماسک تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔
درحقیقت ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کاٹن کے کپڑے سے بنے ماسک بھی سانس سے خارج ہونے والے ذرات کو بلاک کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس حد تک تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔
کپڑے کے ماسک ارگرد کے ماحول کو پہننے والے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ این 95 ماسکس ارگرد کے ماحول سے پہننے والے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ماسک کو دھوئیں یا تلف کریں؟
طبی ماہرین کا تو کہنا ہے کہ فیس ماسک کو زیرجاموں جیسا ہی تصور کریں یعنی ہر بار استعمال کے بعد دھولیں۔
یعنی ایک بار پہننے کے بعد آپ کے منہ یا دیگر افراد کے منہ سے خارج ہونے والے ذرات اس پر جمع ہوسکتے ہیں تو جیسے ہی اتاریں تو ان کو دھولیں (کپڑے کے ماسک کئی بار دھو کر استعمال کیے جاسکتے ہیں) یا محفوظ طریقے سے تلف کردیں۔
آسان الفاظ میں اگر آپ نے کپڑے کا ماسک استعمال کیا ہے تو فوری طور پر دھو دیں، اگر ڈسپوزایبل ماسک ہے تو فوری تلف کردیں۔
اور ہاں ماسک پہننے کے بعد کچھ کھانے کے لیے انہیں نیچے کرنا اور چیز کھا کر اوپر گرنے سے گریز کریں، ورنہ اس احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔