جوہری معاہدہ توڑنے پر امریکا سے جواب طلب کیا جائے، ایران کا اقوام متحدہ سے مطالبہ
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکا کی جوہری معاہدے سے دستبرداری کے دو سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کیا ہے اس سے جواب طلب کیا جائے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں جواد ظریف نے کہا کہ 'امریکا کی جانب سے جے سی پی او اے سے دستبرداری کے دو سال مکمل ہونے پر میں انتونیو گوتریس پر زور دیتا ہوں کہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے پر امریکا سے حساب لیا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ 'غیرقانونی ہٹ دھرمی سے اقوام متحدہ کی ساکھ خراب ہورہی ہے اور عالمی امن و استحکام کو خطرات لاحق ہیں'۔
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے نام طویل خط میں امریکا کی معاہدوں سے رو گردانی اور ایران کے اقدامات سے آگاہ کیا۔
مزید پڑھیں:ایران پر پابندی میں توسیع کا 'منہ توڑ جواب' دیا جائے گا، حسن روحانی
انہوں نے کہا کہ اب یہ بات ہر ایک پر واضح ہے کہ امریکا کے غیر قانونی کام بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو نظر انداز کرنے کے عمل ہیں، جس سے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں عالمی برادری، خاص کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کرتا ہوں کہ امریکی حکومت کے گھناؤنے کردار کے جواب میں مناسب اقدامات کریں'۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ 'امریکا کی حالیہ اشتعال انگیز کارروائیوں پر اقوام متحدہ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرے'۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام خط میں انہوں نے واضح کیا کہ 'ایران کی حکومت اور عوام کشیدگی نہیں چاہتے ہیں، انہوں نے ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور ہماری قوم نے ہر دباؤ کا سامنا کیا ہے'۔
جواد ظریف کے مطابق 'اب عالمی برادری کی باری ہے کہ وہ ذمہ داری کا ثبوت دے اور جیسا کہ میں نے زور دے کر کہا ہے کہ اقوام متحدہ، امریکا کا غیرذمہ داری پر احتساب کرے'۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ کیے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر مزید معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران نے جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائل تیار کرلیے ہیں اگر معاہدے کو جاری رکھا تو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی اور ایک ایسی ریاست کو جوہری ہتھیار کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو امریکا کی بربادی کے نعرے لگاتی ہو۔
یہ بھ پڑھیں:ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان
امریکی صدر نے کہا تھا کہ ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں انتہائی خطرناک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران ایک خطرناک ملک ہے اور ایران نے پابندی اٹھائے جانے کے بعد دہشت گردی کو فروغ دیا۔
ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے دیگر ممالک کو بھی خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ایران کی کسی قسم کی مدد کرنے والے ملکوں کو بھی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا ایران ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے اور اس کو یمن، شام اور دیگر مقامات میں دخل اندازی کا موقع نہیں دے سکتے۔
ڈؤنلڈ ٹرمپ نے ایران کے متعدد اداروں اور شخصیات پر پابندی کے علاوہ معاشی میدان میں سخت پالیسی اپنائی تھی اور ایران پر معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ دیگر ممالک کو بھی ایران سے تجارت ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
رواں برس جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ایرانی حکومت پر فوری طور پر اضافی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا۔