پاکستان کی ثقافتی اقدار خواتین کے سرجن بننے کی راہ میں رکاوٹ
لندن: آغا خان یونیورسٹی ہسپتال (اے کے یو ایچ) کی نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پالیسی سازوں سے خواتین کی کم نمائندگی کے حل کے مطالبات کے باوجود پاکستان میں ثقافتی رکاوٹیں خاتون کو سرجن بننے سے روکتی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ جرنل آف سرجری کی جانب سے ' کلچرل بیریئرز فار وومن ان سرجری' کے عنوان سے تحقیق رواں ہفتے کم متوسط آمدن والے ممالک سے تجزیے کے بعد شائع کی گئی۔
تحقیق کے نتائج سے انکشاف ہوا کہ تقریباً 25 فیصد مرد سرجنز کے مقابلے میں 72 فیصد خواتین سرجنز نے بتایا کہ ان کی صنف کے لیے سرجن بننے میں ثقافتی رکاوٹیں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ 9 فیصد مردوں کے مقابلے میں 40 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ خاندان یا قریبی دوستوں کی جانب سے سرجن بننے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: نیویارک میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے پاکستانی ڈاکٹر کی کہانی
تحقیق میں کراس سیکشنل سروے کے نتائج کی تفصیل بیان کی گئی جس میں جولائی 2019 سے نومبر 2019 کے درمیان اے کے یو ایچ کے ڈیپارٹمنٹ آف سرجری میں فرائض سرانجام دینے والے 100 کُل وقتی فیکلٹی اراکین اور تربیتی افراد سے سوال کیے گئے تھے جس میں ردعمل کا تناسب خواتین کی جانب سے 32 فیصد اور مردوں کا 68 فیصد رہا۔
اس میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد سرجنز کے مقابلے میں خواتین سرجنز پر گھر کا کھانا بنانے، صفائی اور لانڈری کی ذمہ داری بھی عائد ہے۔
تحقیق کے مطابق 5 فیصد مردوں کے مقابلے میں 71 فیصد خواتین سرجنز سمجھتی ہیں کہ بچے ہونے سے ان کے سرجیکل کیریئر میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔
اس تحقیق کے دوران یونیورسٹی ہسپتال میں مجموعی طور پر 194 سرجن کام کر رہے تھے یا زیر تربیت تھے جن میں سے 47 خواتین تھیں، ان میں ویسکولر سرجن میں خواتین کی شرح صفر، آرتھوپیڈک سرجری میں 6.06 فیصد اور اوٹولیرنگولوجی سرجری میں 11.1 فیصد تھی تاہم تمام بریسٹ سرجنز، خواتین تھیں۔
تحقیق کے مطابق 22 فیصد مرد سرجنز کے مقابلے میں 47 فیصد خواتین سرجنز نے کہا کہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ سرجن نہیں بن سکتیں، 54 فیصد مرد سرجنز کے مقابلے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد 86 فیصد یہ محسوس کرتی ہے کہ ہمارے کلچر میں سرجری کو مردوں کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ 40 فیصد کا خیال تھا کہ جراحی کا پیشہ خاندان کی پرورش کے لیے ٹھیک نہیں اور یہ زیادہ تر خواتین کی رائے تھی۔
تحقیق کے مطابق 44 فیصد خواتین کے مقابلے میں 76 فیصد مرد سرجنز شادی شدہ تھے جبکہ تمام شادی شدہ خواتین سرجنز کے شوہر اس وقت ملازمت پیشہ ہیں اور 38 فیصد مرد سرجنز کی بیگمات ملازمت نہیں کرتیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا ڈاکٹر فرقان کی موت سے متعلق تحقیقات کا حکم
مزید برآں 86 فیصد خواتین سرجنز جو مائیں بھی ہیں انہیں لگتا ہے کہ ملازمت کے دوران ماں بننا منفی سمجھا جاتا ہے، 71 فیصد خواتین سمجھتی ہیں کہ کام کا مشکل شیڈول اور ڈیوٹیز کے باعث انہیں اپنی یا اپنے بچوں کی صحت پر سمجھوتہ کرنا پڑسکتا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں کارڈیو تھوریسک سرجری کی سربراہ اور پاکستان کی واحد پیڈیاٹرک کارڈیک سرجن ڈاکٹر ماہم ملک جو تحقیق کے مصنف میں سے ایک ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اس تحقیق کا خیال اس وقت آیا جب ان کی دوستوں نے خواتین کی مدد کے لیے فیمیل سرجنز ایسوسی ایشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس تحقیق کو رواں برس فروری میں آرلینڈو میں منعقدہ 15ویں سالانہ اکیڈمک سرجیکل کانفرنس میں بھی پیش کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرجری میں خواتین کی کم نمائندگی کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ یہ امریکا میں موجود رجحان کی عکاس ہے۔
ڈاکٹر ماہم ملک نے کہا کہ یہاں یہ چیلنج ہے کہ ہم اسے مسئلے کے طور پر تسلیم نہیں کرتے اور اس کے حل کے لیے کچھ نہیں کررہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ خواتین جو ڈاکٹر بن جاتی ہیں انہیں پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو خاندانی زندگی کے ساتھ متوازن رکھنے کے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے جو انہیں سرجری جیسی فیلڈ سے باہر رکھتا ہے۔
ڈاکٹر ماہم نے کہا کہ خواتین کو ایک ماں کے نظریے سے دیکھا جاتا ہے اور پیڈیاٹرکس اور گائناکولوجی تک محدود رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ خواتین سے زیادہ منسلک ہے۔
انہوں کہا کہ آج کا کلچر 50 اور 60 کی دہائیوں کی دقیانوسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جب دنیا میں سرجری بڑھ رہی تھی اور اس میں مرد غالت تھے، مردوں کو زیادہ ذہین سمجھا جاتا ہے، آپ ایسا اکثر سنتے ہیں کہ خواتین یہ نہیں کرسکتیں یا ایسا مزاج نہیں رکھتیں جو ایک نقصان دہ ماحول پیدا کرتا ہے۔
ڈاکٹر ماہم ایک معاون خاندان کے باعث خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں، وہ جانتی ہیں کہ بہت ساری خواتین کا تجربہ بالکل مختلف ہے، ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ مجھے سروے کے دوران درحقیقت معلوم ہوا کہ خواتین کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔