کورونا وائرس سے کچھ ممالک میں زیادہ ہلاکتوں کی ممکنہ وجہ سامنے آگئی
وٹامن ڈی کی کمی اور نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے ہلاکتوں کے درمیان تعلق کے شواہد بڑھتے جارہے ہیں۔
اب ایک نئی تحقیق میں اس وبا کے عالمی ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد سائنسدانوں نے وٹامن ڈی کی شدید کمی اور اموات کی شرح میں ٹھوس تعلق دریافت کیا ہے۔
امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی نے چین، فرانس، جرمنی، اٹلی، ایران، جنوبی کوریا، اسپین، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا کے ہسپتالوں اور مراکز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
محققین نے دریافت کی کہ کورونا وائرس سے متاثر جن ممالک میں اموات کی شرح زیادہ ہے، جیسے اٹلی، اسپین اور برطانیہ، میں مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح ان ممالک کے مقابلے میں کم ہے جو اس وبا سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔
مگر محققین نے انتباہ کیا کہ نتائج کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک خصوصاً جن میں اس وٹامن کی کمی واضح نہیں، اس کے سپلیمنٹس کو ذخیرہ کرنا شروع کردے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ لوگوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وتامن ڈی کی کمی کووڈ 19 سے اموات میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، مگر ہمین ہر ایک کو وٹامن ڈی کا استعمال بڑھانے کے لیے مجبور نہیں کرنا چاہیے، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا کام اس شعبے میں دلچسپی کو بڑھائے گا، اس ڈیٹا کے نتائج درست ثابت ہوئے تو نئے علاج کے اہداف کا تعین کرنے میں مدد مل سکے گی۔
اس تحقیق کو طبی جریدے پر ائع نہیں کیا گیا بلکہ طبی سائنس کے پری پرنٹ سرور medRxiv پر جاری کیا گیا۔
تحقیقی ٹیم نے یہ بات جاننے کے بعد لوگوں میں وٹامن ڈی کی جانچ پڑتال کی، کہ اس وائرس کے نتیجے میں ہر ملک میں اموات کی شرح مختلف ہے، کچھ لوگوں کی اموات میں طبی خدمات کا معیار، عمر، ٹیسٹنک کی شرح یا وائرس کی مختلف اقسام کو اس کی وجہ سمجھا جاسکتا ہے، مگر تحقیقی ٹیم تاحال یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اوپر درج عناصر بظاہر کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کرتے، شمالی اٹلی کا طبی نظام دنیا کے چند بہترین نظاموں میں سے ایک ہے، درحقیقت اموات کی شرح میں تضاد ایک ہی گروپ کے افراد میں مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت ہم نے وٹامن ڈی کی نمایاں کمی کو دیکھا ہے۔
دنیا بھر کے دستیاب مریضوں کے دستیاب ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ وٹامن ڈی کی سطح اور مدافعتی نظام کے شدید ردعمل cytokine storm کے درمیان تعلق موجود ہے۔
یہ شدید مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ سانس کے سنگین مسائل کا باعث بنتا ہے جس سے اموات کا خطرہ بڑھتا ہے، ہم نے کووڈ 19 کے اکثر ہلاک افراد میں وائرس سے پھیپھڑوں کی تباہی کو نہیں دیکھا بلکہ مدافعتی نظام کے شدید ردعمل سے ہونے والی پیچیدگیوں کے بارے میں جانا۔
محققین کا ماننا تھا کہ اس حوالے سے وٹامن ڈی اہم کردار ادا کرسکتا ہے، جو نہ صرف مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ان کو خطرناک حد تک متحرک ہونے سے بھی روکتا ہے، اس وٹامن کی صحت مند سطح مریضوں کو سنگین پیچیدگیوں سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے تجزے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے اموات کی شرح میں 50 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے، یہ وٹامن مریض کو وائرس کا شکار ہونے سے تو نہیں بچاتا مگر پیچیدگیوں اور اموات کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے کووڈ 19 کے حوالے سے سے چند رازوں کی وضاحت میں بھی مدد مل سکتی ہے جیسے بچوں میں اس سے ہلاکت کا امکان کم کیوں ہوتا ہے کیونکہ ان میں مدافعتی نظام پوری طرح نہیں بنا ہاتا اور ان میں اموات کی شرح بھی بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو زیادہ مقدار میں وٹامن ڈی کے ڈوز لینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جانا جاسکے کہ وٹامن ڈی کو کس طرح موثر طریقے سے کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے برطانیہ کے کوئین ایلزبتھ ہاسپٹل فاؤنڈیشن اور ایسٹ اینگیلا یونیوروسٹی کی تحقیق کے نتائئج سے بھی اس خیال کو تقویت ملی تھی کہ وٹامن ڈی اور کورونا وائرس کی شدت کے درمیان تعلق موجود ہے۔
اس تحقیق میں یورپ بھر میں اموات کی بلند شرح کا تعلق وٹامن ڈی کی کمی سے جوڑا گیا ہے۔
اس سے قبل یورپ بھر میں 20 ممالک کے شہریوں میں اوسط وٹامن ڈی کی شرح کا ڈیٹا جاری کیا گیا تھا اور اس تحقیق میں اس ڈیٹا کا موازنہ ان ممالک میں کووڈ 19 سے ہونے والی اموات سے کیا گیا۔
تحقیق کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی اور اموات کی تعداد میں نمایاں تعلق موجود ہے کیونکہ جن ممالک میں اس بیماری سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں، وہاں کے شہریوں میں وٹامن کی شرح بھی سب کم تھی۔
محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 سے سب سے زیادہ متاثرہ گروہ وہ ہے جس میں وٹامن ڈی کی بھی سب سے زیادہ کمی ہے۔
قبل ازیں آئرلینڈ کے ٹرینینٹی کالج کی ایک تحقیق میں بھی اسی طرح کے نتائج ظاہر کیے گئے تھے۔
ٹرینیٹی کالج کی تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی ایسا کردار ادا کرسکتا ہے جو نظام تنفس کے انفیکشنز کی روک تھام، اینٹی بائیوٹک کی ضرورت کو کم جبکہ امراض کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل کو بہتر بناتا ہے۔
اس تحقیق میں دنیا کے مختلف حصوں میں کووڈ 19 سے ہونے والی اموات اور وٹامن ڈی کی سطح کو دیکھا گیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کچھ ممالک جیسے آسٹریلیا میں کووڈ 19 سے اموات کی شرح کم ہے جبکہ وہ ممالک جہاں کے شہریوں میں وٹامن ڈی کی کمی کا مسئلہ زیادہ ہے، وہاں کووڈ 19 کے مریضوں میں سنگین قسم کا ورم والا ردعمل سامنے آیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ وٹامن ڈی کی کمی سورج کی روشنی میں کم گھومنے، عمر میں اضافے، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، موٹاپے جیسے عناصر کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں کووڈ 19 کی شدت میں اضافے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ایسے ممالک جہاں سورج کی روشنی زیادہ ہوتی ہے وہاں اموات کی شرح نسبتاً کم ہے جبکہ وہ ممالک جہاں موسم سرما اور بہار میں سورج کی روشنی سے زیادہ وٹامن ڈی حاصل نہیں ہوتا، ان میں اموات کی شرح زیادہ ہے، جیسے اٹلی اور اسپین، جہاں کے شہریوں میں وٹامن ڈی کی کمی کا مسئلہ عام ہے۔
تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی ورم کے خلاف اس ردعمل کو ریگولیٹ اور دبانے کے لیے ضروری ہے جو کووڈ 19 میں سنگین نتائج میں کردار ادا کرتا ہے اور وینٹی لیٹر اور اموات کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی فوری ضرورت ہے تاکہ وٹامن ڈی اور کووڈ 19 کی شدت کے درمیان تعلق کو ثابت کیا جاسکے جبکہ دنیا بھر میں حکومتوں کو اس وٹامن کے سپلیمنٹس کے استعمال پر زور دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ غذا (جیسے مچھلی، پنیر، انڈے کی زردی اور کلیجی)اور سپلیمنٹ کے ذریعے بھی دوران خون میں وٹامن ڈی کی سطح کو بڑھایا جاسکتا ہے، جبکہ یہ وٹامن ہڈیوں، مسلز اور مدافعتی نظام کی صحت کے لیے مفدی ہے اور اس مدافعتی ردعمل کی ششدت کو کم کرسکتا ہے جو کووڈ 19 کی پیچیدگیوں کو بڑھا دیتا ہے۔