چینی بحران: تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کی اجازت دے دی
چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان کو ثبوت پیش کرنے کے لیے پیش ہونے کی اجازت دے دی۔
اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بذریعہ خط شاہد خاقان عباسی کو آگاہ کیا۔
ایف آئی اے کے جوابی خط میں کہا گیا کہ شاہد خاقان عباسی اور خرم دستگیر 9 مئی کو ایف آئی اے ہیڈکواٹر اسلام آباد آسکتے ہیں۔
ڈان اخبار کیرپورٹ کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ وہ ملک میں سابق چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ہونے والے تجربے کی روشنی میں تحقیقاتی کمیشن کو شوگر اسکینڈلز بننے سے متعلق آگاہ کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے تحقیقاتی کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں اسکینڈلز کی تحقیق کے تجربات سے آگاہ کرنے کی پیشکش کی تھی۔
مزید پڑھیں: چینی بحران تحقیقات: شاہد خاقان کا شواہد فراہم کرنے کیلئے چیئرمین انکوائری کمیشن کو خط
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کمیشن نے تحریری بیان یا کوئی دیگر دستاویز جمع کروانے کا کہا تھا جس سے اسکینڈل کی تحقیقات میں مدد مل سکتی لیکن میں نے تحقیقاتی کمیشن کو بتایا کہ میں کوئی تحریری بیان یا دستاویز نہیں دوں گا لیکن اپنے تجربے کی بنیاد پر، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سابق رکن اور وفاقی کابینہ کے سابق سربراہ کی حیثت سے تعاون کروں گا۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں وزیراعظم کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وہ تحقیقاتی کمیشن کو بتائیں گے کہ چینی کا بحران کیسے پیدا ہوتا ہے۔
چینی کے بحران کی وجوہات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ چینی کی برآمد کی اجازت دینا ایک بڑی وجہ تھی، تحقیقاتی کمیشن کو معلوم کرنا چاہیے کہ جب مقامی طلب پوری نہیں ہوئی تھی تو چینی کی برآمد کی منظوری کس نے دی۔
خیال رہے کہ شاہد خاقان عباسی نے چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے چیئرمین واجد ضیا کو بحران سے متعلق شواہد فراہم کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔
پہلے خط کے جواب میں کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو ذاتی طور پر پیش ہونے کے بجائے صرف دستاویزاتی ثبوت ارسال کرنے کا کہا تھا۔
بعدازاں شاہد خاقان عباسی نے تحقیقاتی کمیشن کو دوبارہ خط لکھ کر ذاتی طور پر پیش ہونے پر اصرار کیا تھا دوسرے خط کے جواب میں کمیشن نے شاہد خاقان عباسی اور خرم دستگیر کو پیش ہونے کی اجازت دی۔
خط میں شاہد خاقان عباسی نے لکھا تھا کہ انکوائری کمیشن کو چینی کی قیمتوں میں اضافے اور بدانتظامی کے شواہد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے سیکشن 9 کے تحت کوئی بھی شہری معلومات فراہم کرنے کا مجاز ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ قانون کے تحت کوئی بھی شہری زیر تحقیق معاملے سے متعلق شواہد و دستاویزات فراہم کرنے کا حق رکھتا ہے لہٰذا کمیشن شواہد کی فراہمی کے لیے جگہ اور وقت کا تعین کرے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ میں سابق وزیر تجارت خرم دستیگر خان کے ہمراہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر انصاف کے مفاد میں اس معاملے میں ہونے والی کرپشن اور مس گورننس سے متعلق معلومات فراہم کرنا چاہتا ہوں۔
یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے آڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ آنے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
چینی، آٹے کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ
یاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
یہ بھی پڑھیں:حقائق مسخ کرنے سے وزیراعظم، وزیراعلی پنجاب کی چوری چھپ نہیں سکتی،مریم اورنگ زیب
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی'۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی
رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی جاتی رہی، اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی، لہٰذا چینی برآمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہوا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک یہ کہ انہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا۔