ٹڈی دل کے حملوں کا سامنا کرنے کیلئے پاکستان کی بین الاقوامی تعاون کی کوششیں
صدی کی ابتدائی 2 دہائیوں میں ٹڈی دل کے بدترین حملے کا سامنا کرنے والا پاکستان بھرپور طریقے سے بین الاقوامی تعاون پر زور دے رہا ہے تا کہ ان کیڑوں کی مقامی سطح پر نگرانی اور روک تھام کی کوششوں میں اضافہ کر کے اس کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹڈی دل کو کنٹرول کرنے کے لیے بین الادارہ جاتی تعاون سے منسلک ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ یہ تیزی سے واضح ہورہا ہےکہ صورتحال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے۔
جنوب مغربی ایشیا میں پاکستان ہمیشہ سے ٹڈی دل کے حملوں کا زیادہ سامنا کرتا ہے کیوں کہ یہاں افزائش کے 2 موسم ہیں ایک بہار دوسرا موسنمِ گرما اور ساتھ ہی پاکستان ہجرت کرنے والے اس کیڑے کے راستے میں پڑتا ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آگنائزیشن(ایف اے او) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 38 فیصد زمین ٹڈی دل کے افزائش کی جگہ ہے جس میں 60 فیصد بلوچستان، 25 فیصد سندھ اور پنجاب کی 15 فیصد زمین شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹڈی دل کے حملوں سے پاکستان میں غذائی تحفظ کے بحران پیدا ہونے کا خدشہ
تاہم اگر اس کیڑے کو افزائش نسل کے علاقوں میں محدود نہ گیا تو اب پورے ملک کو ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ہوگا۔
سرکاری رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ ‘ابتدا میں ہماری توقعات یہ تھیں کہ یہ مسئلہ بتدریج حل ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور تیسری نسل کی بھی افزائش ہوگئی‘۔
ٹڈی دل کا حالیہ پھیلاؤ 2018 میں شروع ہوا جس کی وجہ کچھ ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں۔
ساتھ ہی وزارت تحفظ خوراک نے خبردار کیا ہے کہ افزائش نسل کے لیے ٹڈی دل کا ایران سے ہجرت کر کے سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں آنے کا امکان ہے۔
چنانچہ یہ بہت مشکل دور ہوگا کیوں کہ متعدد جھنڈ متوقع ہیں اورقبل از وقت آمد مئی سے وسط سے متوقع ہے۔
مزید پڑھیں: ٹڈی دل کے حملے کا خدشہ: وزیر اعلیٰ سندھ کا مدد کیلئے وزیر اعظم کو خط
رواں برس پاکستان میں بڑے پیمانے پر ٹڈی دل کی افزائش نسل ہوئی اور غول اور جھنڈ بننا شروع ہوگئے جو خضدار، واشک، دالبدین، پنجگور، چاغی کے پہاڑوں، گوادر پسنی کے درمیانی علاقے، کشمور، گھوٹکی، شمالی سکھر، راجن پور، بہاولنگر، ڈیری غازی خان، اوکاڑہ اور ساہیوال کے علاوہ ڈیرہ اسمٰعیل خان اور لکی مروت میں دیکھے گئے۔
ایف اے او کی تازہ پیش گوئی کے مطابق ’انڈس ویلی، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ٹڈی کے موجودہ جھنڈ ہجرت کرنے والے جھنڈ اور غول بنائیں گے اور تھرپارکر کی جانب جائیں گے۔
دوسری جانب وزارت تحفظ خوراک کے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے گزشتہ برس ملک کبھر میں بڑے علاقوں میں سروے اور اقدامات کر کے اس کے روک تھام کی کوششیں شروع کردی تھیں۔
اس سلسلے میں لاجسٹک، ڈیٹا جمع کرنے اور صورتحال کی نگرانی میں فوج کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ سویلین مشینری کی گنجائش ناکافی ہے بالخصوص اس وجہ سے کہ انہوں نے کئی دہائیوں سے اس قدر بڑے مسئلے کا سامنا نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے چین 50 ڈرونز، کیڑے مار ادویات فراہم کرے گا
علاوہ ازیں اس حوالے سے بین الاقوامی تعان حاصل کرنا دفتر خارجہ کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔
سفارتی کوششوں کے حوالے سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’ہمارے تمام مشنز ان ممالک پر زور ڈال رہے ہیں کہ جن کا ٹڈی دل سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے کہ تعاون کو فروغ دیں، معلومات کا تبادلہ، اور روک تھام کے اقدمات اٹھائیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان کو چین سے ایک لاکھ 94 ہزار کیڑے مار ادویات (میلاتھیون) اور 28 ہائی پاور اسپرے مشین موصول ہوئی ہیں۔
تاہم پاکستان کو 3 لاکھ 81 ہزار لیٹرکیڑے مار دواؤں 3 لاکھ 25 ہزار لیٹر ایملس،فائیڈ کنسنٹریٹ اور سپرے والی 176 گاڑیوں کی ضرورت ہے۔
ترکی نے پاکستان کو پائپر بریو اسپرے جہاز فراہم کیا ہے جسے سی ون 30 طیارے کے ذریعے بدھ کو وطن لایا گیا۔