’2 وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں تو کپڑے کون سلوائے گا؟‘
'بھائی، میرے 2 سوٹ لے لو اور اس کے ساتھ یہ میچنگ کی لیس بھی۔'
'باجی 2 تو نہیں ہوں پائیں گے، کوشش کروں گا کہ چاند رات تک ایک دے دوں۔ ایک ہفتے پہلے ہی کپڑوں کی بُکنگ بند کردی تھی لیکن آپ پرانی کسٹمر ہیں اس لیے ہامی بھرلی۔'
یہ دلچسپ تکرار، اصرار اور انکار رمضان میں ہر گلی محلے کے ٹیلر یعنی درزی کی دکان کا عام نظارہ ہوا کرتا تھا لیکن کورونا وائرس نے دیگر ہنرمندوں کے ساتھ ساتھ درزی کی دکانوں پر بھی تالے لگوا دیے ہیں۔
رمضان المبارک میں لاک ڈاؤن کے سبب سب سے زیادہ متاثر طبقے میں اگر درزیوں کو بھی شامل کیا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ سلے سلائے کپڑوں کی مقبولیت کے باوجود رمضان سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب درزی سب سے زیادہ اہم شخص بن جاتا ہے۔
درزیوں کی دکانیں 15ویں روزے کے بعد رات بھر کھلی رہتی ہیں۔ بس پھر ٹیلر ماسٹر کپڑوں کے انبار کو کاٹ کاٹ کر اپنے نائب درزیوں کو دیتے جاتے ہیں، جو مشینوں پر جھکے انہیں خوبصورت اور نت نئے ڈیزائن کے جوڑوں میں ڈھالتے جاتے۔ لیکن آج کورونا وائرس کی وبا کے باعث درزیوں کی دکانیں بھی ویران ہیں اور سارا سال عید کے سیزن کا انتظار کرنے والا یہ طبقہ معاشی بدحالی کا شکار ہے۔
مزید پڑھیے: انٹرنیٹ پر منافع بخش کاروبار کرنے کا یہی اچھا وقت ہے
کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کے رہائشی عاطف مقامی شاپنگ مال میں تیار شدہ کپڑوں کی دکان سے وابستہ ہیں۔ عاطف جوڑوں کی سلائی کے عوض 30 ہزار ماہانہ گھر لے جاتے تھے۔ شیر خوار بچے، بیوی اور ماں کے ساتھ رہنے والے عاطف کا گزارا اچھے طریقے سے ہورہا تھا کہ پھر کورونا آگیا اور مالز بند ہوگئے اور عاطف کو مجبوراً گھر بیٹھنا پڑگیا۔
عاطف کا کہنا ہے کہ میں 'اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں۔ 2 مہینے سے کام بند ہے، جن کے لیے کپڑے سیتا ہوں وہ خاتون مہربان ہیں، وہی کچھ نہ کچھ مدد کر رہی ہیں۔ لیکن انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کب تک؟ ان کا کاروبار چھوٹا ہے اور اس وقت بند پڑا ہے اس لیے وہ کافی پریشان اور مشکل میں ہیں۔ رشتہ داروں سے قرض لے کر گزارا کررہا ہوں، 2 مہینے کا گھر کا کرایہ اور بل ادا نہیں کرسکا۔ قرض سے صرف راشن پورا کر رہا ہوں اور چھوٹے بچے کا دودھ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ حالات کب ٹھیک ہوں گے اور کب ہمارا روزگار بحال ہوگا۔ کورونا اور لاک ڈاؤن نے تو ہمیں تباہ کردیا ہے‘۔
کراچی کے راشد منہاس روڈ پر واقع مال میں دکان چلانے والی خاتون ٹیلر کوثر کی کہانی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کوثر نے بتایا کہ ’میرے شوہر ریٹائرڈ ہیں اور میرے 3 بچے ہیں جن میں سے ایک ذہنی معذوری کا شکار ہے۔ دکان پر اپنے ساتھ 2 مزید ٹیلر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ 2 مہینے سے دکان بند ہے اور کراِیہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ابھی تو بجلی کا بل بھی ادا کرنا ہے اور اوپر کے خرچے الگ ہیں۔ لیکن صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم جیسے لوگ کہاں کھڑے ہوں گے‘۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کوثر کہتی ہیں کہ 'طویل بیروزگاری میں سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کھانے پینے کا بندوبست بھی ادھار پر ہو رہا ہے۔ آس پڑوس میں رشتہ داروں سے کپڑے سلوانے کا کہا لیکن سب ایک جیسے حالات کا شکار ہیں۔ 2 وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں تو کپڑے کون سلوائے گا؟ رمضان کا بھی مہینہ چل رہا ہے، اور سوچتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا۔ ہم جیسے لوگ تو پہلے ہی کھائیں گے کیا اور بچائیں گے کیا کی عملی تصویر بنے ہوتے ہیں اور اوپر سے لاک ڈاؤن کے حالات نے معاشی پریشانی میں مزید اضافہ کردیا ہے‘۔
اس بڑی تصویر کا ایک اہم حصہ وہ خواتین بھی ہیں جو مارکیٹ اور مالز کی بندش کی وجہ سے آن لائن کپڑوں کی خریداری پر مجبور ہیں۔ کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال کی رہائشی تبسم ایک ایسی ہی خاتون ہیں۔ ان سے جب ہم نے عید کی تیاری سے متعلق پوچھا تو بولیں 'رمضان کا ایک عشرہ تو گزر گیا لیکن اب تک فیصلہ نہیں کر پارہی ہوں کہ آن لائن سوٹ منگواؤں یا نہیں کیونکہ درزیوں کی دکانیں تو بند ہیں۔ میرا درزی تو لاک ڈاؤن کے شروع میں ہی پنجاب میں اپنے آبائی شہر چلا گیا اور کوئی سوٹ سینے والا ٹیلر یا درزن مل نہیں رہی۔ کپڑا منگوا بھی لوں اور گھر پر بغیر سلا رکھا رہے تو کیا فائدہ آن لائن شاپنگ کا؟ حالانکہ آج کل کپڑوں پر 50 فیصد تک قیمتیں کم ہوچکی ہیں اور بہت خواہش ہے کہ کپڑے خرید لوں مگر درزی ہی نہیں تو کچے کپڑے کا میں کیا کروں گی؟'
ناظم آباد چورنگی میں قائم درزی کی دکان چلانے والے نوجوان اسد نے بتایا کہ وہ دکان کھول ہی نہیں رہے۔ 'میں یہ دکان اپنے 2 دوستوں کے ساتھ مل کر چلا رہا تھا۔ ہاتھ میں صفائی ہے اس لیے گاہک بندھے ہوئے بھی تھے اور کام دیکھ کر نئے بھی آجاتے تھے لیکن لاک ڈاؤن میں کاروبار کی بندش کے باعث ہم سب کے گھر والوں کو بھی مشکل کا سامنا ہے۔ ایک 2 ہفتے تو انتظار کیا لیکن اب تو 2 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، نہ بازار کھلے ہیں اور نہ ہی لوگ خریداری کر رہے ہیں‘۔
مزید پڑھیے: کورونا نے ذہنی امراض سے متعلق ہماری سنجیدگی کو مزید آشکار کردیا
اسد مزید کہتے ہیں کہ 'ہمارا کام تو پہلے ہی مندا چل رہا تھا۔ 6 ماہ پہلے ہی ہم دوستوں نے اپنی دکان حیدری مارکیٹ میں بند کی تھی کیونکہ وہاں دکان کا کرایہ اور بجلی کا بل وغیرہ وقت پر نہیں دے پا رہے تھے۔ اب یہاں دکان چل رہی تھی تو اب یہ صورتحال ہے۔ میری رہائش گولی مار میں ہے اور ہم کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ تو اب میں پچھلے 2 ہفتوں سے ایک کارخانے میں کام کر رہا ہوں‘۔
’کیا لوگ کپڑے سلوا رہے ہیں؟‘ ہمارے اس سوال پر اسد کا کہنا تھا کہ ’کچھ پرانے گاہکوں نے فون پر رابطہ کیا لیکن میں نے ان سے کپڑے نہیں لیے کیونکہ دکان بند ہے اور گھر اتنا بڑا نہیں ہے کہ یہاں مشین لگا کر کام شروع کردیا جائے ایسے میں اگر کپڑا خراب ہوگیا تو چار باتیں اور سننی پڑجائیں گی‘۔
کورونا اور لاک ڈاؤن سے روزگار گنوانے والوں میں صرف درزی ہی نہیں بلکہ اسی سلسلے کی ایک کڑی بٹن، لیس، دوپٹے پر پیکو والے اور رنگریز بھی ہیں۔
گلشنِ اقبال کے محلے کی ایک مارکیٹ میں عارف 20 سال سے اپنے بھائی کاشف کے ساتھ پیکو کا کام کرتے آرہے ہیں۔ اچھے وقت میں پیکو کا کام چل نکلا تو کاروبار کو بڑھاتے ہوئے میچنگ کے دوپٹے، ڈائی اور کپڑوں پر لگائی جانے والی لیسوں کا کام بھی شروع کردیا لیکن کورونا کی وبا نے سالوں کی محنت کو جیسے برباد ہی کرکے رکھ دیا ہے۔
'تقریباً 2 مہینے سے دکان بند پڑی تھی اور ابھی بس کوئی ایک ہفتے سے کھولنا شروع کی ہے لیکن اب بھی شٹر آدھا بند ہی رکھا جاتا ہے'، 3 اطراف سے بند دکان میں کھڑے پسینے میں شرابور عارف نے پُرطیش لہجے میں بتایا۔
حالات سے تنگ عارف نے تو کورونا وائرس پر ہی سوال اٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا 'صورتحال دیکھتے ہوئے اندازہ ہورہا ہے کہ صرف رمضان اور عید نہیں بلکہ یہ تو اب بقر عید تک ایسے ہی حالات نظر آرہے ہیں۔ ہم جیسے غریبوں کا تو کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں'۔
عارف نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا 'جب سے طارق روڈ پر واقع مال میں خواتین کی دکان میں بند ہونے والی ویڈیو منظرِ عام پر آئی ہے تب سے جو اکا دکا خواتین آرہی ہیں وہ شٹر آدھا کھلا رکھنے پر اصرار کررہی ہیں۔ پہلے تو دُور سے پولیس کی گاڑی دیکھ کر ہم بھی شٹر گرالیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں کرسکتے۔ ہم ہر طرح سے مشکل میں ہیں'۔
عبدالمالک صاحب نے بتایا کہ 'رنگائی ہمارا خاندانی کام ہے۔ ہم رنگریز ہیں۔ میری دکان پہلے ابّا چلاتے تھے پھر میں نے چلانا شروع کی اور اب میرے ساتھ میرا بیٹا بھی دکان پر بیٹھتا ہے۔ رمضان کا دوسرا عشرہ بھی شروع ہوگیا لیکن دکانیں اب بھی بند ہیں۔ تھوڑا بہت کام گھر سے کر رہے ہیں لیکن اس وقت وہی پرانے گاہک ہم تک پہنچ پارہے ہیں جنہیں ہمارا گھر معلوم ہے۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اب بہت سے رنگ ختم ہو رہے ہیں۔ اب چونکہ یہ ہمارا خاندانی کام ہے اس لیے ہم رنگ خود بنا لیتے ہیں لیکن یہ بھی زیادہ وقت تک نہیں چلیں گے اور ختم ہوجائیں گے۔ پھر لوگ بھی زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ ہمارے پاس گاہکوں کے پرانے کپڑے اب بھی پڑے ہیں‘۔
لیاقت آباد میں لائننگ اور دوپٹوں کی دکان پر کام کرنے والے آفاق اور ان کے گھر والے بھی معاشی تنگی کا شکار ہیں۔ ان کے 2 بھائی ہیں لیکن وہ بھی لاک ڈاؤن کے باعث گھر بیٹھے ہیں۔ آفاق کا کہنا ہے کہ ’سرکاری مدد کے لیے درخواست دی تو کہا گیا آپ سے رابطہ کریں گے۔ اس بات کو بھی کئی روز گزر گئے ہیں لیکن نہ کسی نے کوئی رابطہ کیا نہ مدد ملی'۔
دیہاڑی کماکر روز زندگی کی گاڑی کھینچنے والے درزی ہوں یا محنت کش طبقے کا کوئی اور فرد یا پھر چھوٹے کاروبار کے ذریعے دوسروں کو روزگار کی زنجیر سے جوڑنے والے افراد، موجودہ حالات میں یہ سبھی انتہائی مشکل صورتحال کا شکار ہیں اور حکومت سے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
عام لوگوں سے مل کر اور ان کے تاثرات کو جان کر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ کمزور پالیسیوں نے عوام کے دل سے وبا کا خوف نکال کر بھوک کا ڈر بھر دیا ہے۔