اے ڈی پی فنڈز منجمد ہونے سے سندھ میں ترقیاتی منصوبوں پر کام رک گیا
کراچی: صوبہ بھر میں جاری تمام ترقیاتی منصوبوں اور اسکیموں پر کام میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ صوبائی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے بعد موجودہ سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے لیے مختص تمام فنڈز منجمد کردیا جانا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تعمیراتی صنعت اور صوبائی محکمہ خزانہ میں موجود ذرائع نے بتایا ہے کہ اے ڈی پی فنڈز منجمد ہونے کی وجہ سے 800 سے زائد سرکاری ٹھیکیداروں کو 8 ارب روپے سے زائد کی ادائیگی روک دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکیداروں کو اے ڈی پی کے تحت سہ ماہی ادائیگی دی جاتی تھی، کراچی میں ان کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ادائیگی کی گئی تھی جبکہ صوبے کے باقی حصوں میں مختلف صوبائی محکموں کی ترقی اور ترقیاتی اسکیموں پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو پہلی اور دوسری سہ ماہی میں ادائیگی کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: سندھ کی ترقی پر استعمال ہونے والا پیسہ جعلی اکاؤنٹس میں منتقل ہوا، وزیر مواصلات
ذرائع کا کہنا تھا کہ جاری ترقیاتی اسکیم پر کام معطل ہونے سے نہ صرف ٹھیکیداروں، ذیلی ٹھیکیداروں اور کارکنوں کو ہی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس کے علاوہ شہریوں اور میونسپل انفرااسٹرکچر پر بھی منفی اثر پڑے گا۔
ٹھیکیداروں کی وزیراعلیٰ سے اپیل
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے تعمیراتی ٹھیکیداروں نے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ سے اپیل کی تھی کہ وہ موجودہ اے ڈی پی کے لیے مختص فنڈز کو فوری طور پر بحال کردیں تاکہ ہزاروں غریب ہنر مند اور غیر ہنر مند یومیہ اجرت کمانے والوں کو وقت پر ملازمت پر رکھا جاسکے۔
کراچی کنسٹرکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایس ایم نعیم کاظمی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 22 اپریل کو وزیر اعلٰی کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ فوری طور پر اے ڈی پی فنڈز کو بحال کریں اور محکمہ خزانہ کو ہدایت جاری کریں کہ وہ جاری منصوبوں اور اسکیمز میں کاموں کی رقم جاری کرے تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اگر آپ شہر میں معمول کی سرگرمیاں دیکھتے ہیں تو پہلے ہی کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے، صرف وہ دکانیں اور چھوٹے کاروباری مراکز جو عید سے قبل کھول دیے جانے چاہیے تھے وہ بند ہیں جبکہ باقی کاروبار (فیکٹریاں، دفاتر، ملیں، تعمیرات وغیرہ) معمول کے مطابق کام کررہی ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نے 17 اپریل کو کورونا وائرس کے تناظر میں تعمیراتی صنعت میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے پیکج کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بند ہونے والے سرکاری شعبے کی ترقی اور ترقیاتی اسکیموں پر تیزی سے عمل درآمد کے ذریعے مطلوبہ مراعات کو براہ راست تعمیراتی شعبے سے وابستہ لاکھوں کارکنوں تک توسیع دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف کراچی میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی سیکڑوں ترقیاتی اسکیموں میں 550 سے زائد ٹھیکیدار شامل ہیں اور ان کی 5 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں تعطل کا شکار ہیں۔
کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ایک ٹھیکیدار عبدالرحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ شہر کی میونسپل انتظامیہ کے 300 سے زائد ٹھیکیدار اپنے بلوں کی منظوری کے بعد طویل عرصے سے ادائیگی کے منتظر تھے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری سہ ماہی میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر ہونے والے کام کے ٹھیکیداروں کو ادائیگی کے لیے صوبائی حکومت نے کے ایم سی کو 41 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم جاری کردی ہے۔
انہوں نے بتایا ’تاہم ٹھیکیداروں کو ان کی ادائیگی نہیں دی گئی کیونکہ کورونا وائرس کے تناظر میں کے ایم سی کے متعلقہ محکمہ کے دفاتر بند کردیے گئے تھے‘۔
یہ بھی پڑھیں: 'پائیدار ترقی اہداف کا پروگرام' کابینہ سے محکمہ پارلیمانی امور منتقل کرنے کا فیصلہ
عبدالرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہزاروں ہنرمند اور غیر ہنر مند ورکرز کے ایم سی کے ٹھیکیداروں اور ذیلی ٹھیکیداروں سے وابستہ تھے جنہیں بدترین مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے بھی وزیر اعلٰی سندھ سے اپیل کی کہ وہ منجمد فنڈز کو فوری طور پر جاری کریں تاکہ تعمیراتی ورکرز کو بے روزگار نہ کیا جائے۔
کے ایم سی کا ٹھیکیداروں پر 2 ارب روپے واجب الادا
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ کے ایم سی ٹھیکیداروں کو ادائیگی نہیں دی گئی کیونکہ صوبائی حکومت نے ابھی تک اے ڈی پی کا دوسرا سہ ماہی فنڈ میونسپل انتظامیہ کو جاری نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹھیکیداروں نے اپنے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث شہر میں جاری بلدیاتی انفرا اسٹرکچر کے ترقیاتی اسکیموں پر کام بند کردیا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کو انہوں نے بار بار صوبائی حکومت کے سامنے اٹھایا ہے تاہم سب بے سود ثابت ہوا کیونکہ انہوں نے اے ڈی پی کے دوسرے سہ ماہی فنڈز جاری کرنے کے لیے ان کی درخواستوں پر کبھی کوئی جواب نہیں دیا۔
میئر کراچی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال میں ابھی تک اے ڈی پی کے پہلے سہ ماہی فنڈز ہی جاری کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر چاروں سہہ ماہی کے اے ڈی پی کے فنڈز مئی کے مہینے تک جاری کردیے جاتے ہیں‘۔
ان کاکہنا تھا کہ کے ایم سی پر جاری اسکیموں میں ٹھیکیداروں کے تقریباً 2 ارب روپے واجب الادا ہیں۔
وزیر بلدیات ناصر شاہ سے بار بار کوشش کے باوجود معاملے پر ردعمل کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔