پاکستانی سائنسدانوں نے کورونا کے علاج میں مددگار ادویات کی شناخت کرلی
پاکستانی سائنسدانوں نے نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے اہم کامیابی حاصل کرتے ہوئے اس کے علاج میں مددگار ممکنہ ادویات کی شناخت کرلی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسین اینڈ ڈرگ ریسرچ کی اس تحقیق میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے امریکا کے ادارے فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی منظور کردہ 3 ادویات اور 2 قدرتی مرکبات کو اس کے علاج کے لیے اہم قرار دیا۔
جریدے جرنل آف بائیو مولیکیولر اسٹرکچر اینڈ ڈائنامک میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ فی الحال اس نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کا کوئی منظور شدہ علاج موجود نہیں اور اس کے لیے ایفف ڈی اے کی منظور شدہ اینٹی وائرل ادویات کو کمپیوٹینشنل طریقہ کار کے ذریعے آزمایا گیا۔
محققین نے ایف ڈی اے کی منظور کردہ 3 ادویات ریمیڈیسیور، اسکوائناویر اور ڈارنوویر کے ساتھ ساتھ 2 قدرتی مرکبات فلیون اور کویومارین ڈریوسٹیوز کو کووڈ 19 کے علاج کے حوالے سے اہم قرار دیا۔
اسکوائناویر اور ڈارنوویر مختلف ناموں سے فروخت کی جانے والی ادویات ہیں جو ایچ آئی وی / ایڈز کے علاج اور روک تھام کے لیے استعمال کی جاتی ہیں مگر دیگر وائرسز کے لیے بھی استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
فلیون ایسا قدرتی مرکب ہے جو سرخ۔ جامنی رنگ کے پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ مختلف نباتاتی اقسام میں پایا جاتا ہے جبکہ دوسرا مرکب عام طور پر وٹامن کے مسائل کی روک تھام کے لیے استعمال کرایا جاتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران ایف ڈی اے کی منظور کردہ 16 ادویات اور کئی قدرتی مرکبات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
محققین نے دیکھا کہ یہ ادویات کس طرح نئے نوول کورونا وائرس کے اسٹرکچر پر اثرانداز ہوتی ہیں اور خلیات کو ہدف بنانے والے پروٹین کو ہدف بناتی ہیں۔
انہوں نے دریافت کیا کہ اوپر درج ادویات اور 2 قدرتی مالیکیولز وائرس کے خلیات کو متاثر کرنے کے عمل یا اپنی نقول بنانے کے عمل کو ہدف بناتے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ تحقیق مریضوں پر نہیں ہوئی مگر محققین نے زور دیا کہ اس حوالے سے مزید کام کیا جانا چاہیے جس سے تیز رفتار بنیادوں پر نئے نوول کورونا وائرس کے علاج کی شناخت اور تیاری میں مدد مل سکتی ہے۔
اس تحقیق کو کرنے والی ٹیم میں سلمان علی خان، کومل ضیا، ساجدہ اشرف، ریاض الدین اور ظہیر الحق شامل تھے۔
اس تحقیق کو جریدے کے پاس یکم مارچ کو جمع کرایا گیا اور 30 اپریل کو اسے قبول کیا گیا، جس کے بعد اپریل کے وسط میں اسے شائع کیا گیا۔
واضح رہے کہ ریمیڈیسیور کو پہلے ہی امریکا میں نئے نوول کورونا وائرس سے بیمار ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج افراد کے علاج کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ کراچی یونیورسٹی کے جمیل الرحمٰن سینٹر فار جینوم ریسرچ اور ڈاؤ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم سیکونس کی تیاری اور اس کے جینیاتی تجزیے میں اہم پیش رفت کی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ (جے سی جی آر) نے ایک مقامی مریض کی مدد سے کورونا وائرس کا مکمل جینوم سیکونس تیار کیا، جس کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں یہ وائرس چین کے مقابلے میں کچھ مختلف ہے۔
اس وائرس کے تجزیے کے حوالے سے تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ اس کا نمونہ ایک ایسے مریض سے حاصل کیا گیا جو ایران کا سفر کرکے آیا تھا اور اسے علاج کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخل کیا گیا، جبکہ نمونے کا تجزیہ کراچی یونیورسٹی کے مرکز میں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ 'تجزیے کا بڑا ٹاسک انتہائی احتیاط سے انسانی جینوم کو وائرس کے جینوم سے الگ کرنا تھا، اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ٹیم ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں مکمل کیا اور اس دریافت کا موازنہ بین الاقوامی ڈیٹا سے کیا گیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقی ٹیم نے جب اس کا موازنہ چین کے شہر ووہان میں تیار ہونے والے سیکونس سے کیا تو جینوم کے مختلف حصوں میں 9 میوٹیشن (ڈی این اے میں تبدیلیاں) نظر آئیں۔
انہوں نے وضاحت کی 'مگر اس کے باوجود یہ وائرس ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ہی جڑتا ہے، پروٹین اور انزائمے میں کوئی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں، جو وائرس کو انسانی جسم کے اندر سانس کی نالی میں جگہ بنانے میں مدد دیتے ہیں'۔
پروفیسر اقبال چوہدری کے مطابق کورونا وائرس میں تبدیلیاں بہت سست روی سے ہورہی ہیں اور ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان تبدیلیوں سے مرض کی شدت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ نیا نوول کورونا وائرس مقامی صورتحال کے مطابق اپنے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں لارہا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی سربراہی میں ایک ٹیم نے کورونا وائرس کے جینوم سیکونس کا تجزیہ کیا جو ایک مقامی مریض کے نمونوں سے تیار کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق سیکونس کا تعین ایک زبردست اقدام ہے جو مستقبل میں ویکسین اور تھراپیز میں مدد دے سکے گا، مگر فی الحال یہ ابتدائی مرحلہ ہے اور اس حوالے سے تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے دوران نمونے سے وائرس کے آر این اے کو الگ کیا گیا، یہ وائرس نوجوان میں مقامی طور پر ہی منتقل ہوا تھا مگر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ وائرس سعودی عرب سے آیا تھا اور اس کے نتیجے میں نوجوان کے خاندان کے 15 افراد متاثر ہوئے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کا مقامی سطح پر پھیلائو بہت تیزی سے ہورہا ہے۔
جینوم سیکونس سے انکشاف ہوا کہ اس وائرس کا سیکونس ووہان میں پھیلنے والے وائرس سے معمولی سا مختلف ہے جس میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
یہ وائرس چین سے پھیلنا شروع ہوا اور پاکستان میں سعودی عرب کے راستے پہنچا۔
ٹیم کا کہنا تھا کہ یہ تو بس ایک کیس ہے، ابھی متعدد دیگر نمونوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے جن کے مریض دیگر ممالک جیسے ایران، عراق، شام، برطانیہ اور امریکا میں اس کا شکار ہوئے۔
بعدازاں ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس) کی طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں سے حاصل کیے جانے والے اینٹی باڈیز کو صاف کرکے ان سے ایک خاص قسم کے ذرات حاصل کرکے ان سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن ( آئی وی آئی جی ) تیار کی تھی۔
آئی وی آئی جی دراصل اینٹی باڈیز اور پلازما سمیت انسانی خون میں موجود دیگر ذرات کا ایک مکسچر ہوتا ہے اور اس طریقہ علاج کو پہلے بھی کئی مرضوں کے لیے استعمال کیا جا تا رہا ہے۔
یہ طریقہ علاج عالمی سطح پر علاج کے طریقوں کی منظوری دینے والے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف اے ڈی) کی جانب سے بھی منظور شدہ ہے اور اسے ماضی میں قوت مدافعت کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر (وی سی) پروفیسر محمد سعید قریشی نے مذکورہ علاج کے حوالے سے بتایا کہ نئے طریقہ کار کو ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ایک ریسرچ ٹیم نے تیار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے ابتدائی طور پر مارچ 2020 میں کچھ مریضوں کے خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، جس کے بعد مذکورہ مریضوں کے خون کے پلازما سے اینٹی باڈیز کو کیمیائی طور پر الگ و صاف کرنے کے بعد ان سے ایک نیا طریقہ علاج امیونوگلوبیولن تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
یونیورسٹی ٹیم کے مطابق چوں کہ اینٹی باڈیز میں ناپسندیدہ مواد اور بعض وائرس و بیکٹیریاز شامل ہوتے ہیں، اس لیے مذکورہ طریقہ کار کے تحت اینٹی باڈیز میں موجود ہر قسم کے ناپسندیدہ ذرات کو ایک طرف کرکے اینٹی باڈیز سے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کی جاتی ہے اور یہ طریقہ ماضی میں بھی اپنایا جاتا رہا ہے مگر اس طریقہ کو پہلے دوسری بیماریوں پر استعمال کیا جاتا تھا۔
نیا طریقہ علاج ڈھونڈنے والے ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازما استعمال کرنے کے بجائے اسے صاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ ایسے ہی طریقوں کو ماضی میں دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض جیسے کہ سارس و مرس وائرس اور ابیولا سمیت تشنج، انفلوئنزا اور ریبیز کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر اس طریقوں کو کسی نے بھی آج تک کورونا کے لیے استعمال نہیں کیا۔