کانی کا تنہا رومیو
ایک دوسرے سے متصل 6 دیہات پر مشتمل کانی دالبندین کے شمال مغرب میں 27 کلومیٹر دُور واقع ہے۔ دالبندین بلوچستان کے ضلع چاغی کا انتظامی صدر مقام ہے اور کوئٹہ کے مغرب میں قریب 340 کلومیٹر کی دُوری پر آباد ہے۔ انہی دیہات میں سے ایک میں عبدالرحمٰن نامی ایک عمر رسیدہ اور ناتواں شخص تن تنہا ایک خستہ حال جھونپڑی میں رہتا ہے۔
70 برس کے پیٹے میں داخل عبدالرحمٰن مجھے حاجی پکارتے ہیں اور ہماری دوستی ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تب میں نے سوچا تھا کہ عبدالرحمٰن کی بکریاں ان کے ساتھ رہتی ہیں لیکن حال ہی میں فروری کے آخر میں جب ابر آلود موسم میں ان کے پاس جانا ہوا تو یہ راز مجھ پر افشاں ہوا کہ درحقیقت بکریاں عبدالرحمٰن کے ساتھ نہیں بلکہ عبدالرحمٰن بکریوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ درحقیقت بکریوں کے باڑے میں رہتے ہیں۔
عبدالرحمٰن کے ساتھ میری دوستی ایک جھوٹ پر مبنی ہے۔ حالانکہ ہم ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن پھر بھی میں نے خود کو ان کے سامنے قریبی ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والا ایک جمال دینی بلوچ ظاہر کیا ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ میں ایک غیر سرکاری ادارے کے لیے کام کرتا ہوں۔ مجھے ازراہِ مجبوری جھوٹ کا سہارا لینا ہی پڑا کیونکہ عبدالرحمٰن کو اپنے ہم قبائلیوں سے نفرت ہے۔ اس نفرت کی ان کے پاس اپنی وجوہات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ سے بہت دُور اپنی بکریوں کے ساتھ تنِ تنہا زندگی گزار رہے ہیں۔
ان سے ملنے سے قبل غبار آلود شہر دالبندین میں میری ملاقات عبدالرحمٰن کے 25 سالہ بھتیجے خلیل سے ہوئی تھی۔ خلیل اپنے چچا کو راشن پہنچانے کے ماہانہ مشن پر مامور تھا سو میں بھی عبدالرحمٰن کے پاس جانے کے لیے ان کی موٹر سائیکل پر سوار ہوگیا۔ خلیل نے تھوڑی پر داڑھی بڑھائی ہوئی ہے اور وہ کالے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ وہ حال ہی میں لیویز فورس میں شامل ہوئے ہیں۔ خلیل نے جب اپنے اوپر والے ہونٹ کے نیچے ذرا سی نسوار دبائی تو ان کا وہ ہونٹ پرندے کی چونچ نما بن گیا۔ خلیل کی مخصوص طرز کی داڑھی کی وجہ سے ان کے دوست انہیں 'کوہ بز' یا دیہاتی بکری پکارتے۔
بلوچستان میں یہ من گھڑت بات بھی سننے کو ملتی ہے کہ جو مرد شادی نہیں کرے گا اس کی موت حرام تصور کی جائے گی۔ خلیل ساری زندگی اس بات کو سنتا چلا آ رہا ہے اور اس پر یقین بھی رکھتا ہے۔ کم عمری سے ہی انہیں اپنے چچا کی فکر لاحق رہی جو آج بھی کنوارے ہیں۔ آخر عبدالرحمٰن کنوارے کیوں رہ گئے؟ خلیل نے اس کی وجہ اپنے چچا کی عشق میں ناکامی بتائی، اور ناکامی بھی ایک بار نہیں بلکہ دو بار۔
عبدالرحمٰن نے نوجوانی میں ایرانی بندرگاہی شہر چاہ بہار اور بند عباس میں مزدوری کا کام کیا تھا۔ تھوڑے بہت پیسے جمع ہونے پر جب عبدالرحمٰن اپنے آبائی شہر لوٹے تو انہیں جومیتی نامی لڑکی سے پہلی نظر میں ہی پیار ہوگیا۔ خلیل بتاتے ہیں کہ ان کے مرحوم والد (عبدالرحمٰن کے چھوٹے بھائی) حب یار خان کو عبدالرحمٰن کے لیے رشتہ مانگنے کے لیے بھیجا گیا لیکن رشتہ دینے سے انکار کردیا گیا۔ آگے چل کر جومیتی کی شادی کسی اور سے ہوگئی۔ یوں پہلی بار عبدالرحمٰن کے دل کو چوٹ پہنچی۔
تاہم چند دنوں بعد جومیتی بیوہ ہوگئیں۔ عبدالرحمٰن نے ایک بار پھر ان کے گھر اپنا رشتہ بھیجا مگر دوسری بار بھی لڑکی کے گھر والوں نے اسے عبدالرحمٰن کے ساتھ بیاہنے سے انکار کردیا۔ خلیل کی بتائی ہوئی کہانی کے مطابق، اس بات کا علم ہونے پر عبدالرحمٰن کانی کے بالائی علاقے جہاں جومیتی رہا کرتی تھیں، وہاں موجود باسو کریز کے پہاڑوں کی چوٹی پر چڑھ گئے اور وہاں ساری رات روتے رہے۔ انہوں نے بھی تاحیات شادی نہ کرنے کا عہد کرلیا۔
جومیتی بھی اب عمر رسیدہ ہوچکی ہیں لیکن یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ چند ماہ قبل ان کے دوسرے شوہر بھی دنیا سے کوچ کرگئے ہیں۔ سو اب میں خلیل کے ساتھ ان کے بیوہ ہونے کی خبر ساتھ لیے عبدالرحمٰن سے ملنے جا رہا تھا۔
جب ہم عبدالرحمٰن کے پاس پہنچے تب وہ اپنی جھونپڑی کے باہر ایک بوسیدہ سے قالین پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے بھورے رنگ کے کپڑوں کو اتنا پہنا ہے کہ اب ان کا رنگ ہی اڑ گیا ہے۔ البتہ موزوں کا سبز رنگ اب بھی سلامت ہے۔ خلیل مزاحیہ انداز میں انہیں جومیتی کے بارے میں خبر دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آیا وہ اس موقعے کو اپنی موت حلال بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیں گے۔ عبدالرحمٰن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئے 'اب کافی دیر ہوچکی ہے'۔
خلیل بتاتے ہیں کہ عبدالرحمٰن کے بھائی بہنوں نے بہت کوشش کی ان کی شادی کسی دوسری لڑکی سے ہوجائے لیکن وہ کسی لڑکی سے شادی کے لیے راضی نہ ہوئے۔ کبھی وہ کہتے کہ لڑکی بہت زیادہ سانولی ہے، تو بعض دفعہ ناک کی لمبائی کا نقص نکالتے یا کبھی کوئی اور وجہ بتاتے۔ ان کے بھائی بہن سمجھ گئے کہ انہیں صرف جومیتی سے ہی شادی کرنی ہے اس لیے وہ طرح طرح کے بہانے بنا رہے ہیں۔ خلیل مجھے بتاتے ہیں کہ، 'دوسری طرف وہ غرور کر بھی سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں جو تھیں اور یوں وہ کافی مالدار بھی تھے'۔
بلوچستان کا مغربی حصہ جہاں ضلع چاغی واقع ہے وہ اکثر قحط سالی کا شکار رہتا ہے۔ یہاں بارش بہت کم پڑتی ہیں اور برسا برس تک خشک سالی رہتی ہے۔ گزری دہائیوں میں عبدالرحمٰن کے جانوروں کا ریوڑ کم ہوتے ہوتے درجن سے بھی کم جانوروں تک محدود ہوگیا ہے۔ وہ خود بھی اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اب کھانا پکانا ان کے لیے محال ہے۔ اسی وجہ سے ان کے لیے رات کا کھانا قریبی گاؤں سے آتا ہے۔ کچھ برس قبل تک سمیع نامی ایک نوعمر لڑکا ان کے لیے کھانا لایا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے وہ ان کی جھونپڑی سے قریب ایک کلومیٹر دُور بجلی کی زد میں آکر خدا کو پیارا ہوگیا تھا۔ عبدالرحمٰن اکثر اس جگہ جاتے ہیں جہاں سمیع نے وفات پائی تھی۔
شام کو جب عبدالرحمٰن ہمارے لیے چائے بنانے کی غرض سے خشک لکڑیاں اکٹھا کرنے جا رہے تھے تو میں بھی ان کے ہمراہ چل پڑا۔ میں نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے مجھے ان کی زندگی اور ماضی کے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ پھر میں نے ان سے معصومانہ انداز میں ان کی بیوی اور بچوں کے بارے میں پوچھا اور سوال کیا کہ کیا وہ ان کے ساتھ کانی کے گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ لکڑیاں اکٹھا کرنے میں مصروف عبدالرحمٰن کے خشک لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا اگر میں شادی شدہ ہوتا اور میرے بچے ہوتے تو کیا میں ایسی بدحال زندگی گزارتا؟ میں نے ان سے پوچھا کہ اب تک انہوں نے شادی کیوں نہیں کی۔
وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے اور جب بولے تو موضوع ہی بدل دیا اور بکریوں پر بات کرنا شروع کردی۔ تھوڑی ہی دیر بعد خلیل بھی جان بوجھ کر عبدالرحمٰن کو طیش دلانے کے لیے جومیتی کو کوستے ہوئے ہمارے پاس آگیا۔ خلیل نے کہا میرے چچا کی زندگی عذاب بنانے والی کو خدا غارت کرے۔ عبدالرحمٰن نے دھیمی آواز میں جواب دیا 'تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو' اور پھر ایک بھی لفظ اس خاتون کے بارے میں نہیں کہا۔
عبدالرحمٰن دہائیوں سے اس جھونپڑی میں تنہا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عجیب و غریب چیزوں میں یقین کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ ان کے کنٹرول میں جن ہیں اور کانی کے دُور دراز علاقوں میں خزانے چھپے ہوئے ہیں۔
جب وہ ہمارے لیے سیاہ ترین کیٹلی میں چائے بنانے میں مصروف تھے تب ہم ان کے ساتھ ان کی جھونپڑی میں ہی بیٹھے تھے۔ ہم نے جب دُور سے آتی موٹر سائیکل کی آواز سنی تو عبدالرحمٰن نے خلیل کو باہر جاکر دیکھنے کو کہا کیونکہ ان کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ضرور کوئی نہ کوئی ان کے خزانوں میں سے کوئی خزانہ لوٹنے آیا ہوگا۔
عبدالرحمٰن کا ماننا ہے کہ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور کانی میں رہنے والا ہر ایک ان کو لوٹنے کے درپے ہے۔
وہ مجھے کہتے ہیں کہ سارے لوگ خاص کر نوجوان میری جھونپڑی میں آکر کر میری چینی، چائے اور بسکٹ چرانے آتے ہیں۔ میرے بھائی بہنوں میں سے بھی کوئی میری پرواہ نہیں کرتا اور نہ ہی میرے بھتیجے میری کوئی پرواہ کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ خلیل تو ہر ماہ ان کے لیے راشن لاتا ہے۔ یہ سن کر عبدالرحمٰن نے تردیدی انداز میں کہا یہ بھی میرا کبھی خیال نہیں رکھتا۔ یہ سن کر خلیل صرف ہنسے اور ان سے کچھ نہیں کہا۔
پھر کچھ دیر بعد سمیع کے چھوٹے بھائی اپنے گاؤں سے موٹر سائیکل پر رات کا کھانا لے آئے۔ عبدالرحمٰن نے کھانا چکھا اور لڑکے پر غصہ ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ انہیں مارنے کے ارادے سے جان بوجھ کر مصالحہ دار کھانا لایا ہے۔ یہ سن کر لڑکا مسکراتا ہے اور کچھ نہیں کہتا اور پھر واپس اپنے گاؤں چلا جاتا ہے۔
اگرچہ خلیل اور میں نے عبدالرحمٰن کے ساتھ ان کی جھونپڑی میں رات گزارنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا لیکن ہمارا یہ ارادہ سن کر ہمارے میزبان خوش نہیں تھے۔ یہ ایک بکریوں کا باڑہ ہے اور رات ہونے پر ایک ایک کرکے بکریاں اندر داخل ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ عبدالرحمٰن جمائیاں لینا شروع کردیتے ہیں اور ہمیں جانے کے لیے کہتے ہیں۔
ان کے اصرار پر ہم گاؤں کے لیے نکل جاتے ہیں اور پیچھے عبدالرحمٰن اکیلے اپنی بکریوں کے ساتھ رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ ملاقات کی طرح اس ملاقات میں بھی عبدالرحمٰن نے میرے جانے سے پہلے اپنی موت کی پیش بینی کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دن میں مرجاؤں گا اور میرے اردگرد صرف بکریاں ہی ہوں گی۔
یہ مضمون 26 اپریل 2020ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔