لاک ڈاؤن کا مطالبہ کرنے والے طبقے سے منفی پہلو اوجھل ہوا، وزیرخارجہ
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے اشرافیہ کے لاک ڈاؤن کا مقصد لوگوں کو مثبت اور منفی دونوں پہلووں سے عوام کو آگاہ کرنا تھا۔
لاہور میں سروسز ہسپتال کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ڈاکٹرز خراج تحسین کے مستحق ہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ میں ہمارے ڈاکٹروں نے اپنی خدمات سے پاکستان کا سرفخر سے بلند کیا ہے'۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'آج بھی برطانیہ میں دو پاکستانی ڈاکٹروں کی شہادت رپورٹ ہوئی ہے، امریکا میں آج پاکستانی ڈاکٹر قومی پرچم اس طرح سربلند کررہے ہیں جو پاکستان کے سفیر کے فرائض میں شامل ہوتا ہے'۔
بیرون ممالک میں موجود پاکستانی ڈاکٹروں کی خدمات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وہ پاکستان کے سفیر بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کی خیرسگالی کے لیے جو خدمات انجام دے رہے ہیں، اس پر میں انہیں خراج تحسین پیش کررہا ہوں'۔
مزید پڑھیں:لاک ڈاؤن مسلط کرنے والی ایلیٹ کلاس کون ہے، بلاول بھٹو
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں آپ سب پر فخر ہے، مشکل حالات میں آپ نے کام کیااور خداکرے ہم اس چیلنج سے نکل آئیں اور اس وبا سے چھٹکارا ملے'۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اشرافیہ کے لاک ڈاؤن مسلط کرنے کے بیان پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ان کا اشارہ تھا کہ پاکستان میں ایک طبقہ ہے جنہوں نے نیک نیتی سے لاک ڈاؤن کا پرچار کیا اور ان کا مقصد یہی تھا کہ انسانی جانوں کو بچایا جائے'۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ان کی نظروں سے ایک اور پہلو اوجھل ہوگیا وہ یہ تھا کہ لاک ڈاؤن کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں، پاکستان کے علاوہ امریکا اور پوری دنیا میں بحث ہے کہ لاک ڈاؤن ہونا چاہیے اور کس شدت سے ہو، دورانیہ کیا ہونا چاہیے اور اس سے بھوک اور معیشت پر کیا اثر ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے 'انہی باتوں کی طرف اشارہ کیا، ان کی سوچ منفی نہیں تھی، لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی مختلف صورتیں ہیں جس کو اسمارٹ لاک ڈاؤن کہتے ہیں'۔
بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانیوں کے مسائل پر انہوں نے کہا کہ 'میں شہریوں کے احتجاج سے آگاہ ہوں جس کا نوٹس لیا گیا، ملتان میں سب سے بڑا مرکز بنایا گیا تھا جہاں تفتان سے لوگ آئے اور ٹیسٹ منفی آنے کے بعد لوگوں کو جانے دیا گیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'مجھے اُمید ہے کہ وزیراعلیٰ شہریوں کے احتجاج پر کام کریں گے جبکہ وہاں کے انتظامات بظاہر اچھے ہیں اس کے باوجود شہریوں نے احتجاج کیوں کیا'۔
یہ بھی پڑھیں:مکمل لاک ڈاؤن کا فارمولا پاکستان اور امریکا جیسے ممالک میں ناکام ہوگیا، شبلی فراز
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ 'مجھے تاجر تنظیموں کے لوگ ملے اور کہا کہ ہماری پورے سال کی کمائی رمضان میں ہوتی ہے لیکن ہمارے بازار اور کاروبار بند ہے، ہمارے چولہے بھج گئے ہیں اس لیے ہمیں ان کا بھی خیال کرنا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'چیلنج یہ ہے کہ کیا ہمارا صحت کا نظام اس کو برداشت کرپائے گا، اس وقت پاکستان میں وینٹی لیٹرز میں مریضوں کی تعداد کم ہے اور خدا کرے کم ہی رہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا بھر کے اعداد و شمار اور ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ بیماری آبھی سکتی اور چھو کر بھی جاسکتی ہے اس لیے صرف ایک تقریر کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیے جاتے بلکہ ان سارے پہلوؤں اور مکمل تصویر کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں'۔
خیال رہے کہ اسلام آباد میں کامسٹیک ہیڈکوارٹرز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ایلیٹ کلاس لاک ڈاؤن مسلط کرنا چاہتی تھی جنہیں عوام کے مسائل کا علم نہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکمراں اشرافیہ نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ غریب مزدور جو سارا دن محنت کرکے کماتا ہے اس کا کیا ہوگا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے دوسری بات یہ سامنے آئی کہ صاحب اقتدار چاہیں بھی تو باہر علاج کروانے نہیں جاسکتے ورنہ پہلے کھانسی بھی آتی تو عوام کے پیسے پر باہر علاج ہوتا تھا، آج وہ نہیں جاسکتے وہاں زیادہ خطرہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ہم نے اپنے ہسپتال ٹھیک کرنے ہیں، ہم نے ہسپتالوں پر سرمایہ کاری کرنی ہے، میڈیکل انفرا اسٹرکچر کو ٹھیک کرنا ہے کہ آگے ایسی کوئی صورتحال سامنے آئے تو پھر کیا کرنا ہے۔
'بھارت کو دنیا کے کرب کا احساس نہیں'
وزیرخارجہ نے کہا کہ 'بدقسمتی سے بھارت کو ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ دنیا کس کرب سے گزر رہی ہے، ہمارا خیال تھا کہ کووڈ-19 کے بعد ان کے رویوں میں تبدیلی آئے گی لیکن نہیں آئی'۔
انہوں نے کہا کہ 'مقبوضہ کشمر کا گھیراؤ جاری ہے، وہاں انٹرنیٹ اب بھی بحال نہیں ہوا، وہاں محصور کشمیریوں کی ڈاکٹروں اور ہسپتالوں تک رسائی نہیں ہے ، وہاں ظلم اور جبر جاری ہے'۔
بھارت کے اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'مختلف حیلوں اور بہانوں سے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں اور نیا کام شروع کیا ہے کہ لاشیں لواحقین کو واپس تک نہیں کرتے ہیں، بھارت کی یہ کیفیت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کے ان اقدامات کی طرف توجہ دلائی ہے اور خطوط لکھے ہیں۔