ذرائع ابلاغ اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش، مصر میں صحافت جرم بن گئی
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصر میں گزشتہ 4 برسوں سے زائد کے عرصے میں حکام کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے اداروں اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوششوں کے باعث وہاں صحافت ایک مؤثر طریقے سے جرم بن گئی ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق لندن سے تعلق رکھنے والے حقوق کے گروپ ایمنسٹی نے عالمی یوم صحافت پر جاری اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ چونکہ مصر میں کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے حکومت اس صحت عامہ کے بحران کے دوران شفافیت برقرار رکھنے کے بجائے اطلاعات پر اپنی طاقت کو مضبوط کر رہی ہے۔
ایمنسٹی کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائریٹر فلپ لیوتھر کا کہنا تھا کہ 'مصری حکام نے یہ واضح کردیا ہے کہ جو کوئی بھی سرکاری بیانیہ کو چیلنج کرے گا اسے سخت سزا دی جائے گی'۔
مزید پڑھیں: آئی پی آئی کا مصر کی حکومت سے صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ
ایمنسٹی کی جانب سے 37 صحافیوں کے ایسے کیسز کے بارے میں بتایا گیا جنہیں مصری حکومت نے آزادی صحافت پر بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن میں حراست میں لیا، جن میں زیادہ تر پر 'جھوٹی خبریں پھیلانے' یا 'سوشل میڈیا کے غلط استعمال' کے الزامات ہیں جو 2015 کے وسیع انسداد دہشت گردی قانون کے تحت عائد کیے گئے ہیں اور اس میں دہشت گردی کی تعریف میں ہر قسم کے اختلاف کو شامل کیا گیا ہے۔
اس تمام معاملے پر مصری پریس افسر کی جانب سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا تاہم ماضی میں حکام حقوق کی خلاف ورزیوں کو مسترد کرتے ہوئے قومی سیکیورٹی کی بنیاد پر گرفتاریوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
سال 2013 میں جنرل سے صدر بن کر اقتدار پر براجمان ہونے والے عبدالفتح السیسی کے آنے کے بعد زیادہ تر مصری ٹیلی ویژن پروگرامز اور اخبارات نے حکومتی مؤقف اختیار کیا ہے اور انہیں تنقید سے پاک کردیا ہے یا انہیں غائب کردیا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف نجی مصری نیوز چینلز کو ان کمپنیوں کی جانب سے لے لیا گیا جو ملک کی انٹیلی جنس سروسز سے منسلک ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تاہم حکومت کی حمایت میں بولنے نے بھی ریاستی میڈیا اداروں کے لیے کام کرنے والے 12 صحافیوں کو نہیں بخشا اور سوشل میڈیا پر مختلف نجی خیالات کا اظہار کرنے پر انہیں جیل جانا پڑا۔
انہی میں سے ایک صحافی الخرر پریس ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف عاطف حسب اللہ بھی ہیں، جب انہوں نے گزشتہ ماہ اپنے فیس بک پیج پر وزارت صحت کی کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد کو چیلنج کیا تو انہیں فوری طور پر پولیس وین میں ڈال دیا گیا اور 'دہشت گرد تنظیم میں شمولیت' کے شبہ میں حراست میں لیا گیا گیا۔
ایمنسٹی کے مطابق مصر کے پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے حالیہ بیانات میں خبردار کیا گیا تھا کہ جو بھی کورونا وائرس سے متعلق 'غلط خبریں' پھیلائے گا اسے 5 سال تک کی قید اور جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اب تک کووڈ 19 سے متعلق کریک ڈاؤن میں 12 افراد کو پکڑا جاچکا ہے۔
ادھر ایمنسٹی کی جانب سے صحافیوں کے انٹرویو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی کوریج میں براہ راست ریاستی مداخلت میں اضافہ ہوا ہے۔
سرکاری یا اس کے اتحادی اخبارات کے لیے کام کرنے والے مختلف صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہیں بذریعہ واٹس ایپ خصوصی ہدایات موصول ہوتی ہیں کہ کیا رپورٹ کرنا ہے اور کیا چھوڑ دینا ہے۔
مثال کے طور پر اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل-فلسطین تنازع کو ختم کرنے کی تجویز کو کس طرح پیش کرنا ہے اس حوالے سے ہدایات موصول ہوئیں اور رپورٹرز کو کہا گیا کہ اس منصوبے کی طویل المیعاد عرب پالیسوں کی خلاف ورزی کا ذکر نہیں کرنا کیونکہ ٹرمپ اور السیسی کے قریبی تعلقات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مصر میں میڈیا دفتر پر چھاپا، 3 صحافی گرفتار
تاہم رپورٹ کے مطابق ایک صحافی کا کہنا تھا کہ جو سرکاری لائن پر عمل نہیں کرتے جیسے وہ قیدیوں کی حالت کا بتاتے ہیں اور ریاست کے سیاسی مخالفین سے متعلق کہتے ہیں تو انہیں نوکریاں کھونا پڑتی ہیں، تفتیش یا قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہون نے کہا کہ میں تصور نہیں کرسکتا کہ کوئی اس کی تعمیل سے انکار کرسکتا ہے۔
ایمنسٹی کی جانب سے عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر مصری حکام پر زور دیا گیا کہ وہ سینسرشپ اور صحافیوں کو ہراساں کرنا اور دھمکانا ختم کرے اور انہیں رہا کرے جنہیں صرف اپنے کام کی انجام دہی کی وجہ سے حراست میں لیا گیا۔