ڈاکٹرز میری موت کا اعلان کرنے کے لیے تیار تھے، بورس جانسن
کورونا وائرس ہوجانے کے بعد ایک ہفتے تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے برطانوی وزیر اعظم 55 سالہ بورس جانسن نے اعتراف کیا ہے کہ دوران علاج ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہوگئی تھی اور ڈاکٹرز ذہنی طور پر ان کی موت کا اعلان کرنے کے لیے تیار تھے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ بورس جانسن نے اپنی بیماری، دوران علاج اپنی ذہنی و جسمانی حالت کے حوالے سے کھل کر کوئی بات کی ہے۔
واضح رہے کہ بورس جانسن میں 27 مارچ کو کورونا کی تشخیص ہوئی تھی تاہم اس باوجود وہ گھر سے ہی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔
تاہم ایک ہفتے بعد بورس جانسن کی طبیعت بگڑ گئی تو انہیں 6 اور 7 اپریل کی درمیانی شب لندن کے سینٹ تھامس ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم بھی کورونا کا شکار
ہسپتال منتقل کیے جانے کے بعد ہی ان کی حالت مزید خراب ہوگئی تھی، جس کے بعد انہیں 7 اپریل کو ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں منتقل کردیا گیا تھا، جہاں ابتدائی 8 گھنٹے تک ان کی حالت انتہائی تشویش ناک رہی تھی۔
تقریباً 3 دن تک آئی سی یو میں گزارنے کے بعد 10 اپریل کو انہیں انتہائی نگہداشت والے وارڈ سے باہر عام وارڈ میں منتقل کردیا گیا تھا۔
آئی سی یو کے بعد بھی بورس جانسن تقریباً مزید 2 دن تک ہسپتال میں رہے تھے اور 12 اپریل کی سہ پہر کو انہیں سینٹ تھامس ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود انہوں نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالی تھیں۔
تاہم 26 اپریل کی شب وہ اپنے سرکاری دفتر ڈاؤننگ اسٹریٹ لوٹ آئے اور 27 اپریل کو انہوں نے صحت یاب ہونے کے بعد پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس کی سربراہی کی۔
مزید پڑھیں: برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن انتہائی نگہداشت یونٹ منتقل
ذمہ داریاں سنبھالے جانے کے محض 2 دن بعد ہی بورس جانسن کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔
بورس جانسن کی منگیتر 37 سالہ کیری سائمنڈز نے 29 اپریل کو بیٹے کو جنم دیا، دونوں کے ہاں شادی سے قبل بچے کی پیدائش ہوئی اور بورس جانسن نے اپنے بیٹے کا نام اپنا علاج کرنے والے ڈاکٹرز سے متاثر ہوکر ولفریڈ لاری نکولس رکھا۔
بیماری کے باعث تقریباً ایک ماہ تک وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں ادا نہ کر پانے والے بورس جانسن نے صحت یاب ہونے کے بعد پہلی بار ایک انٹرویو کے دوران اپنی بیماری پر کھل کر بات کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بورس جانسن نے برطانوی اخبار دی سن کو دیے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہوگئی تھی اور ڈاکٹرز ان کی موت کا اعلان کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔
بورس جانسن نے بتایا کہ ڈاکٹرز اور دیگر عملے نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور انہیں اپنی انتہائی خراب حالت کا بھی علم تھا۔
انہوں نے محکمہ صحت کے عملداروں اور ڈاکٹرز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ان کی موت کی صورت میں سوویت یونین کے سربراہ جوزف اسٹالن کی موت جیسی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیر اعظم ہسپتال سے ڈسچارج، زندگی بچانے پر ڈاکٹرز کے شکر گزار
بورس جانسن نے اعتراف کیا کہ ان کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ گئی تھی اور وہ اس سے پریشان بھی ہوگئے تھے، سوچ میں پڑ گئے تھے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نکلیں گے، تاہم انہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ مر بھی سکتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ کورونا کا شکار ہونے کے باوجود ہسپتال نہیں جانا چاہتے تھے مگر ڈاکٹروں کے زور اور تجویز کے بعد وہ ہسپتال منتقل ہوئے، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور مذکورہ فیصلے میں ماہرین درست تھے۔
انٹرویو کے دوران ایک بار پھر انہوں نے ڈاکٹرز کی مہارت کی تعریف کی اور ایک بار پھر ان کا شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس سے جہاں وزیر اعظم بورس جانسن متاثر ہوئے تھے، وہیں شہزادہ چارلس بھی کورونا کا شکار ہوئے تھے، جب کہ برطانیہ کی نائب وزیر صحت سمیت دیگر اہم سیاستدان اور سماجی شخصیات بھی اس وبا کا شکار بنی تھیں۔
برطانیہ میں 3 مئی کی دوپہر تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ ایک لاکھ 84 ہزار کے قریب جا پہنچی تھی جب کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 28 ہزار سے زائد ہوچکی تھیں۔
مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے ایک ماہ بعد ذمہ داریاں سنبھال لیں
برطانیہ کورونا وائرس کی ہلاکتوں کے حوالے سے یورپ میں اٹلی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور مجموعی طور ہلاکتوں کے حوالے سے تیسرا بڑا ملک ہے۔
کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہوچکی ہیں،جہاں ہلاکتوں کی تعداد 66 ہزار سے زائد جب کہ متاثرین کی تعداد 11 لاکھ 33 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔
دنیا بھر میں 3 مئی کی دوپہر تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 34 لاکھ 40 ہزار سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ 43 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔