امریکا، چین نے عالمی ادارہ صحت کے تنازع پر سلامتی کونسل کی قرارداد کا راستہ روک دیا
اقوام متحدہ: امریکا اور چین نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں ڈرافٹ ہونے والی قرارداد کو روک دیا ہے جس میں کورونا وائرس وبا کے دوران 90 روز کے لیے انسانی حقوق کی بنیادوں پر عالمی سطح پر تنازعات کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہاں سلامتی کونسل عالمی بحران کے لیے رد عمل تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے وہیں عالمی صحت کی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے معاملے پر تنازعات قرارداد پر رائے شماری کی امید کم کردیتے ہیں۔
ایک سفارتکار کا کہنا تھا کہ ’ایک بڑی خاموشی ہے، کوئی حرکت نہیں کر رہا‘۔
ایک اور سفارتکار کا کہنا تھا کہ ’ہم پانی کی طرح چالیں چل رہے ہیں‘۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کا مشرق وسطیٰ کے تنازعات پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟
فرانس اور تیونس کی جانب سے مرتب کی گئی تحریر پر کئی ہفتوں سے بحث کی جارہی ہے۔
اس میں کورونا وائرس سے افغانستان اور یمن جیسے دنیا بھر کے علاقوں کی تنازع میں پھنسی خطرات کا شکار آبادی سے 90 روز کے لیے تنازع کو روک کر ان کی مدد کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس ڈرافٹ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے 23 مارچ کو کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے دنیا بھر میں جنگ بندی کی اپیل کی بھی حمایت کی گئی ہے۔
تاہم واشنگٹن اور بیجنگ اس بات پر خاموش ہیں کہ کس طرح اس تحریر میں عالمی ادارہ صحت کو بھی شامل کیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے وبا سے لڑنے میں کردار پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کرچکے ہیں۔
انہوں نے شکایت کی تھی کہ یہ کورونا وائرس کے معاملے پر شفاف نہیں اور انہوں نے ادارے کو ملنے والی امریکی فنڈنگ بھی روک دیئے تھے۔
چین نے اس کے رد عمل میں عالمی ادارہ صحت کو اضافی فنڈ کی پیشکش کی تھی۔
متعدد سفارتکاروں نے وضاحت کی کہ ’چین زور دے رہا ہے کہ اس میں عالمی ادارہ صحت کو بھی شامل کیا جائے جبکہ امریکا ایسا نہیں چاہتا‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد 16800 سے زائد، اموات 385 تک پہنچ گئیں
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ’ہم جاری مذاکرات پر اپنی رائے نہیں دیتے‘۔
تاہم اقوام متحدہ میں چینی سفیر کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل حاصل نہیں کیا جاسکا۔
تحریر کے شریک مصنف، جو سلامتی کونسل کے باقی اراکین ہیں، چین اور امریکا کے درمیان صلح کا انتظار کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ چین اور امریکا دونوں سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور ان دونوں ممالک کے پاس ویٹو اختیار بھی ہے۔
دیگر سفیروں نے بتایا کہ رواں ہفتے کے آغاز سے اب تک اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔