فضائیہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں ریفرنس دائر کرنے کیلئے نیب کو 24 مئی تک کی مہلت
کراچی: احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 18 ارب روپے کے مبینہ اراضی اسکینڈل میں فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے خلاف 24 مئی تک ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ میکسم پراپرٹیز سے تعلق رکھنے والے ملزمان تنویر احمد اور بلال تنویر کو 2015 میں پاک فضائیہ (پی اے ایف) کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے تحت شروع کی جانے والی فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز معاملہ احتساب عدالت کے انتظامی جج کے سامنے آیا جہاں تفتیشی افسر پرویز ابڑو نے مزید وقت کی درخواست کی تاکہ نیب کو معاملے میں ریفرنس دائر کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ فریقین (پی اے ایف اور میکسم پراپرٹیز) تصفیہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ الاٹیز کو ریفنڈ کیا جاسکے۔
مزید پڑھیں: ہاؤسنگ اسکیم: پاک فضائیہ اور نیب کے درمیان متاثرین کو رقم کی واپسی کیلئے مذاکرات جاری
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے انتظامات 14 مئی تک مکمل ہوجائیں گے جس کی وجہ سے اس کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
تحقیقاتی افسر ابڑو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جج نے مشاہدہ کیا کہ ملزمان کی گرفتاری اور معاملے کو عدالت میں لائے 120 روز گزر چکے ہیں۔
جج نے سوال کیا کہ اضافی وقت کی فراہمی کے باوجود ابھی تک اس معاملے میں ریفرنس کیوں نہیں دائر کیا گیا۔
عدالت نے تحقیقاتی افسر کو عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 24 مئی تک ملتوی کردی۔
عدالت نے وکیل دفاع کی درخواست پر تحقیقاتی افسر سے ملزمان کے ذاتی سامان کے بارے میں بھی ایک رپورٹ طلب کی۔
گزشتہ سماعت پر تحقیقاتی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ نیب کے 16 مارچ کو منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں مجاز اتھارٹی، چیئرمین نیب کی منظوری کے بعد ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ معاملہ 18 مارچ کو مزید کارروائی کے لیے نیب ہیڈ کوارٹر بھیجا گیا تھا، ہیڈ کوارٹر نے کچھ اعتراضات اٹھائے تھے جنہیں حل کرنے کے بعد چیئرمین کے فیصلے کے لیے معاملہ اسلام آباد میں نیب کو بھجوا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہاؤسنگ اسکیم: پاک فضائیہ کی نیب کو 5700 متاثرین کی شکایات کے ازالے کی پیشکش
تحقیقاتی افسر نے کہا تھا کہ اسی معاملے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ میں ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کے دوران مشتبہ افراد کے وکیل نے کہا تھا کہ فریقین (پی اے ایف اور میکسم پراپرٹیز) کسی تصفیہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ الاٹیز کو ریفنڈ کیا جاسکے۔
لہذا انہوں نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ پیش کرنے کے لیے وقت کی درخواست کی تھی جس پر انہیں 30 اپریل تک کی اجازت مل گئی تھی۔
گزشتہ سماعت پر تحقیقاتی افسر نے ایک رپورٹ پیش کی تھی کہ متاثرہ افراد سے زیادہ سے زیادہ رقم نکالنے کے ارادے سے دونوں ملزمان نے مبینہ طور پر اس منصوبے کی جگہ کو پوشیدہ رکھا تھا اور عوام کو پی اے ایف کے نام پر یہ جعلسازی کی تھی۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پی اے ایف نے متاثرہ لوگوں کو رقم کی واپسی کے لیے نیب کو پہلے ہی درخواست جمع کروائی ہے اور وہ مزید تمام ذمہ داریوں پر تصفیہ کے لیے تیار ہیں۔
تحقیقاتی افسر نے بتایا کہ ملزمان سے تفتیش کے دوران یہ بات ریکارڈ پر آچکی ہے کہ انہوں نے الاٹیز سے غیر قانونی طور پر 3 کروڑ 90 لاکھ روپے، پروسیسنگ فیس کے طور پر 7 کروڑ 70 لاکھ روپے، اپارٹمنٹس پر 9 ارب روپے، بنگلوں پر 5 ارب روپے چارج کیے اور ان کے غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے سے متعلق مزید حقائق کا سراغ لگایا جارہا ہے تاکہ فراڈ کی نوعیت کو سمجھا جاسکے۔
اراضی کی دھوکہ دہی کے بارے میں تحقیقاتی افسر نے کہا کہ مزید شواہد ریکارڈ پر آچکے ہیں کہ سندھ حکومت نے 2014 میں پہلے ہی زمینی حصول ایکٹ 1894 کے سیکشن 4 نافذ کرتے ہوئے کے 4 واٹر سپلائی منصوبے کے لیے اراضی کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے ملزمان نے اس حقیقت کو چھپایا اور پی اے ایف کو دوسرے ساتھیوں کی ملی بھگت سے 2015 میں اپنی رہائشی اسکیم کے لیے 'کے 4 منصوبے' کے تحت آنے والی اراضی کو قبول کروانے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بدعنوانی کے عزائم اس حقیقت سے ظاہر تھے کہ انہوں نے پہلے ہی سے کسی سرکاری منصوبے کے لیے مختص کی گئی زمین کے لیے لوگوں سے رقم اکٹھا کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ متاثرین کی رقم کی بازیابی کو یقینی بنانے اور دیگر مستفید افراد کی تلاش کے 170 افراد/کمپنیوں، جن کو ادائیگی کی گئی تھی، کا کھوج لگایا جارہا ہے۔