• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

ملک میں پولیو کے مزید 2 کیسز رپورٹ، رواں سال مجموعی تعداد 44 ہوگئی

شائع May 1, 2020 اپ ڈیٹ July 17, 2020
پاکستان میں  قطروں اور انجیکشن کی صورت میں ٹائپ 1 اور ٹائپ 3 وائرسز دیے جاتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں قطروں اور انجیکشن کی صورت میں ٹائپ 1 اور ٹائپ 3 وائرسز دیے جاتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ویکسین سے اخذ شدہ پولیو وائرس کے مزید 2 کیسز سامنے آگئے جس کے بعد ملک میں رواں سال کے دوران پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 44 ہوگئی۔

قومی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں ایک ڈیڑھ سال کی بچی پولیو کے سبب معذوری کا شکار ہوئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’خیبرپختونخوا میں پولیو سے متاثر ہونے والی بچی کی عمر ایک سال 5 ماہ ہے اور اس کا تعلق ضلع لوئر دیر سے ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو کے مزید 2 کیسز سامنے آگئے، رواں سال مجموعی تعداد 41 ہوگئی

عہدیدار نے بتایا کہ ’یہ وائلڈ پولیو بیماری نہیں بلکہ یہ پولیو کی سیبن لائیک ٹائپ 2 ڈرائیوڈ (ایس ایل ٹی 2 ڈی) قسم ہے اور اس طرح کا وائرس دنیا کے متعدد ممالک میں رپورٹ ہوچکا ہے۔

ان ممالک میں فلپائن، چین، انڈونیشیا، نائیجیریا، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور افریقہ کے متعدد ایسے ممالک شامل ہیں جہاں پولیو بیماری کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ وائلڈ پولیو وائرس کی 3 سیرو ٹائپس پائی جاتی ہیں جو کیپسڈ پروٹین کے معمولی فرق کے ساتھ ٹائپ 1، ٹائپ 2 اور ٹائپ 3 ہیں۔

پاکستان میں اورل پولیو ویکسین (او پی ویز) یعنی قطروں اور انجیکشن کی صورت میں ٹائپ 1 اور ٹائپ 3 وائرسز دیے جاتے ہیں۔

تاہم سال 2014 میں ملک میں ٹائپ 2 وائرس دینا بند کردیا گیا تھا اور سال 2016 سے وہ ملک میں ماحولیاتی سطح پر بھی نہیں پایا گیا۔

مزید پڑھیں: سندھ میں پولیو کا ایک اور کیس، رواں سال متاثرہ بچوں کی تعداد 37 ہوگئی

خیال رہے کہ ماحولیاتی سطح پر پولیو وائرس کا مثبت آنے کا مطلب یہ ہے کہ سیوریج کے پانی میں وائرس پایا جائے۔

قومی ادارہ صحت کے عہدیدار نے مزید بتایا کہ سال 2019 میں مختلف علاقوں میں رپورٹ ہونے والے کیسز سے یہ ظاہر ہوتا ہے وائرس کی کچھ باقیات کسی لیبارٹری یا کسی اور جگہ رہ گئی تھی جو انسانی غلطی کے سبب پھیلنا شروع ہوگئی۔


یہ خبر یکم مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024