لاک ڈاؤن: ایک کروڑ 80 لاکھ پاکستانیوں کے ملازمت سے محروم ہونے کا خدشہ
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے معاشی حب کراچی کے ضلع شرقی کی ایک گارمنٹ فیکٹری کے باہر درجنوں مزدور بشمول خواتین مزدوروں کے عالمی دن سے کچھ دن قبل ہی اپنی جبری برطرفی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
درحقیقت فیکٹری کے باہر احتجاج کرنے والے مذکورہ درجنوں ملازمین اپنی تنخواہ وصول کرنے آئے تھے مگر فیکٹری انتظامیہ نے انہیں زبانی طور پر بتایا کہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیکٹری کو بہت مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور اب انتظامیہ کو ان مزدوروں کی خدمات کی ضرورت نہیں۔
اسی فیکٹری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ایک اور ٹیکسٹائل فیکٹری کے باہر بھی درجنوں مزدور احتجاج کر رہے تھے، جنہیں جبری طور پر برطرف کیا گیا تھا۔
مزدوروں کی اسی طرح کی برطرفی کے حوالے سے مزدور یونین نیشنل لیبر فیڈریشن (این ایل ایف) کے صدر شمس الرحمٰن نے بتایا کہ لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد خصوصی طور پر کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو ایسے ہی کوئی اطلاع دیے بغیر ہی نوکری سے فارغ کیا جا رہا ہے۔
ترک خبر رساں ادارے اناطولو سے بات کرتے ہوئے شمس الرحمٰن کا کہنا تھا گزشتہ ماہ سے حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤں کے باعث ملک بھر میں یومیہ درجنوں مزدوروں کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی نجی اداروں اور فیکٹریوں کو کہا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ نہ کریں لیکن اس باوجود ملازمین کی برطرفی جاری ہے۔
وفاقی حکومت نے حال ہی میں ایسی معیشتوں اور فیکٹریوں کے لیے مراعات کا اعلان بھی کیا ہے جو لاک ڈاؤں کے دوران ملازمین کو برطرف نہیں کریں گی تاہم مزدور یونین تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے ہزاروں افراد کو روزگار سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔
حکومت نے لاک ڈاؤن کے باعث روزگار متاثر ہونے کی وجہ سے احساس پروگرام کے تحت لوگوں کو 12 ہزار روپے تک کی رقم فراہم کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا ہے اور اس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔
پاکستان میں گزشتہ ایک ماہ سے لاک ڈاؤن نافذ ہے اور یہ سلسلہ 9 مئی تک جاری رہے گا، خیال کیا جا رہا ہے کہ لاک ڈاؤں کی مدت میں مزید توسیع کی جائے گی، کیوں کہ پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں 30 اپریل کی شام تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 16 ہزار 272 تک جا پہنچی تھی جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 361 تک جا پہنچی تھی۔
مختلف یوم مزدور
وزارت منصوبہ بندی کے تحت کورونا وائرس کے باعث نافذ کیے گئے لاک ڈاؤں کی وجہ سے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ 85 تک افراد روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں جب کہ ملکی معیشت کو 13 سے 16 ارب ڈالر کے درمیان نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پلر) کے مطابق حالیہ بحران سے پاکستان کے غیر رسمی مزدور زیادہ متاثر ہوں گے۔
تنظیم کے مطابق پاکستان کے 6 کروڑ 50 لاکھ مزدوروں میں سے 75 فیصد مزدور غیر رسمی ہیں جن میں سے 40 فیصد مزدور زراعت سے وابستہ ہیں جو اپنی خدمات سر انجام دے رہیں مگر باقی غیر رسمی مزدور حالیہ بحران سے شدید متاثر ہوں گے۔
پاکستان لیبر کونسل اور پلر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی نے اناطولو کو بتایا کہ پاکستان کے زیادہ تر غیر رسمی مزدور غیر رجسٹرڈ ہیں، ان کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں اور نہ ہی انہیں کوئی سماجی اور قانونی تحفظ حاصل ہے اور یہی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار یوم مزدور منفرد ہوگا، اس بار عالمی یوم مزدور کے موقع پر ایک طرف مزدور بے روزگاری اور بھوک سے متاثر ہوں گے تو دوسری جانب کورونا جیسی وبا کے سائے پھیلے ہوئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی 73 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ عالمی یوم مزدور کے موقع پر ملک بھر میں ریلیاں نہیں نکالی جائیں گی اور نہ ہی کہیں سیمینیار منعقد کیے جانے کا امکان ہے تاہم پلر اس حوالے سے آن لائن پروگرامات منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا معیشت کو دہائیوں بعد کورونا سے نقصان
لیکن کرامت علی کہتے ہیں کہ ان سمیت ملک کے لاکھوں مزدوروں کو اس بار عالمی یوم مزدور کی نہیں بلکہ مزدوروں کی پریشانی ہے جن میں سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں اور لاکھوں مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمٰن سواتی کہتے ہیں کہ آج کا پاکستانی مزدور عالمی یوم مزدور منانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی بھوک اور بے روزگاری ختم کرنے کے لیے پریشان ہے۔
نظام بے نقاب ہوگیا
شمس الرحمٰن سواتی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے زراعت و تعمیر کے شعبوں کو کھولنے کی اجازت دینے سمیت احساس پروگرام سے کچھ مزدوروں کو ریلیف ملا ہے۔
کراچی کی ٹریڈ یونین کے عہدیدار لیاقت علی شاہ کے مطابق کورونا وائرس نے پاکستان کے مزدور سسٹم کو بے نقاب کردیا ہے اور حکومت کو اب علم ہو رہا ہے کہ کس طرح ملک کے 78 سے 80 فیصد مزدور رجسٹرڈ ہی نہیں، انہیں کوئی سماجی و معاشی تحفظ ہی حاصل نہیں۔
لیاقت علی شاہ اسٹیٹ بینک امپلائی یونین کے سیکریٹری بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ملک کے 80 فیصد تک مزدور ملازمت کے لیٹر کے بغیر ہی کام کرتے ہیں، انہیں کوئی بھی سماجی، معاشی اور صحت کا تحفظ حاصل نہیں۔
اناطولو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستانی آئین کے مطابق 90 روز تک کہیں بھی کام کرنے والے مزدور کو مستقل کیا جانا چاہیے مگر زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں اور کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: 2 ارب ڈالر کے امدادی منصوبے کا آغاز
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیٹ بینک جیسے ریاستی اداروں میں بھی نچلی سطح کے ملازمین کو تیسری پارٹی کے تحت بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں کانٹریکٹ پر ملازمت دی جاتی ہے۔
حکومت پاکستان نے کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران ملازمین کو برطرف نہ کرنے والے اداروں کو ہدایات کی ہیں کہ اگر وہ کورونا ریلیف کے تحت حکومت سے مالی معاونت چاہتے ہیں تو وہ اپنے ملازمین کی فہرست اور ان کے بینک اکاؤنٹس حکومت کو فراہم کریں گے۔
لیکن لیاقت علی شاہ کا کہنا تھا کہ کئی اداروں اور کمپنیوں کے پاس ایسی فہرست ہی موجود نہیں، کیوں کہ زیادہ تر کمپنیاں تیسری پارٹی کے تحت ملازمین کو بھرتی کرتی ہیں اور اگر کمپنیاں حکومت کو کوئی فہرست فراہم بھی کریں گی تو وہ حکومت کو آگاہ کریں گی کہ ایسے ملازمین کا سوشل سیکیورٹی میں رجسٹرڈ نہیں، جس پر ان کا نظام بے نقاب ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا نے حکومت کو ایک اور موقع فراہم کیا کہ وہ مزدوروں کی رجسٹریشن سمیت ان کے سماجی و معاشی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤں کے باعث پاکستان کے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کی نوکریاں یا روزگار ختم ہونے کا خدشہ ہے۔