جرمنی میں حزب اللہ پر پابندی، مساجد پر چھاپے
جرمنی نے لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ تحریک کی اپنی سرزمین میں سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے اور پولیس نے تنظیم سے منسلک مساجد پر چھاپے بھی مارے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی طرح جرمنی نے اب تک حزب اللہ کے عسکری ونگ پر پابندی عائد کر رکھی تھی جبکہ سیاسی ونگ کو کام کی اجازت تھی۔
تاہم انہوں نے اچانک اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے اس پوری تحریک کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں: راکٹ حملوں کے جواب میں عراقی حزب اللہ کے دفتر پر بمباری کی، پینٹاگون
جرمنی کے اس اقدام کی فوری طور پر امریکا اور اسرائیل کی جانب سے تائید کی گئی۔
جرمنی کے وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ’حزب اللہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو دنیا بھر میں اغوا اور متعدد حملوں میں ملوث ہے‘۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں پیغام دیا کہ جرمنی میں اس تنظیم کی تمام سرگرمیوں پر پابندی کا اطلاق فوری ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بحران کے اس وقت میں بھی قانون کی بالادستی ہوگی‘، انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ ملک بھر میں متعدد مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق درجنوں پولیس اور اسپیشل فورسز کے اہلکاروں نے بریمن، برلن، ڈورٹمنڈ، میونسٹر میں حزب اللہ سے منسلک مساجد میں آج صبح چھاپے مارے۔
اے ایف پی کے نمائندے نے دیکھا کہ برلن میں الارشاد مسجد کو سیل کردیا گیا اور اس کے باہر کم از کم 16 پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں جبکہ ماسک پہنے پولیس افسران مسجد کے اندر آرہے جارہے تھے۔
حزب اللہ کا جرمنی میں خاص اثرو رسوخ موجود نہیں ہے مگر پھر بھی سیکیورٹی فورسز کے اندازے کے مطابق ملک میں اس کے ہزاروں اراکین موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا حزب اللہ کمانڈر شیخ محمد الکوثرانی کی معلومات دینے پر ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان
جرمن سیکیورٹی فورسز کے مطابق جرمنی کو حزب اللہ کے منصوبہ بندی، ہمدردوں کو بھرتی کرنے، فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھتی ہے۔
جرمنی کے وزیر داخلہ سی ہوفر نے جرمن اخبار میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’تنظیم کی مجرمانہ سرگرمیاں اور حملوں کی منصوبہ بندی جرمنی کی سرزمین پر کی جارہی تھیں‘۔
انہوں نے یاد دلایا کہ حزب اللہ نے کھلے عائم اسرائیلی ریاست کی ’تباہی‘ کا کہا ہے۔
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کی طرف سے ہولوکاسٹ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہماری تاریخی ذمہ داری کا حصہ ہے کہ قانون کی حکمرانی میں اس کے خلاف کارروائی کریں‘۔