امریکی معیشت پہلی سہ ماہی میں 4.8 فیصد گراوٹ کا شکار
امریکی ادارے بیورو آف اکنامک تجزیہ (بی ای اے) کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے حساب سے امریکی شرح نمو سالانہ بنیاد پر 4.8 فیصد کمی سے دوچار ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ماہر اقتصادیات شرح نمو میں 4.8 فیصد کمی گریٹ ڈپریشن سے بھی کہیں زیادہ قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھین: کورونا وائرس: امریکی کانگریس 20 کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کیلئے آمادہ
اعداد و شمار سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکی معیشت تیزی سے کساد بازاری میں داخل ہو رہی ہے۔
بی ای اے کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پہلی سہ ماہی میں جی ڈی پی میں کمی دراصل مارچ میں حکومتوں کی جانب سے وائرس کے تناظر میں لوگوں کو گھروں میں رہنے کے حکم سے واقع ہوئی۔
ادارے کے مطابق اس کے نتیجے طلب میں تیزی سے تبدیلی ہوئی، کاروباری سرگرمیاں اور اسکول بند ہوگئے یا انہوں نے اپنے امور منسوخ کردیے، صارفین نے اپنے اخراجات کو منسوخ، محدود یا ری ڈائریکٹ کردیا۔
کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر طلب میں کمی کے باعث امریکی درآمدات 15.3 فیصد جبکہ برآمدات میں 8.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈزنی ورلڈ کا 43 ہزار ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے کا منصوبہ
علاوہ ازیں بتایا گیا کہ کاروباری سرمایہ کاری میں 8.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔
اس ضمن میں معاشی ماہرین نے موجودہ سہ ماہی کے لیے مزید خراب صورتحال کی پیشگوئی کی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی سینیٹ کورونا وائرس کے سبب ہنگامی صورتحال کے پیش نظر 20 کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری دے چکی ہے۔
کانگریس کی جانب سے منظور امریکی تاریخ کے سب سے بڑے امدادی پیکج کے تحت 500 ارب ڈالر وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صنعتی شعبے کی مدد کی جائے گی جبکہ 3 ہزار ڈالر فی کس امریکا کے لاکھوں خاندانوں میں امداد کے طور پر تقسیم کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ چھوٹے کاروباروں کو قرض کے لیے 350 ارب ڈالر، بیروزگاروں کی مدد کے لیے 250 ارب ڈالر اور ہسپتال سمیت نظام صحت کے لیے 100 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا چین تجارتی جنگ، ‘بیجنگ میں مذاکرات کا پہلا دور مثبت رہا‘
گزشتہ ہفتے امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی سطح پر چلی گئی جس کے بعد وال اسٹریٹ میں بھی شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا۔
امریکی بینچ مارک ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) مئی کی ڈیلوری کے لیے منفی 37.63 ڈالر فی بیرل کی سطح پر بند ہوا۔
یعنی خام تیل کے فروخت کنندہ خریدار کو تیل کے ساتھ ساتھ 37.63 ڈالر فی بیرل دینے پر مجبور ہوگئے۔
اس کی وجہ مارکیٹ میں ضرورت سے زیادہ رسد بنی جو سعودی تیل کی پیداوار بڑھانے کا نتیجہ تھا۔
اس وجہ سے تیل ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ کم پڑگئی اور کمپنیاں خریداروں کو تیل اپنے اسٹوریج سے اٹھانے کے لیے خرچہ دینے پر مجبور ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے امریکا میں معاشی بحران کے خدشات کی تردید کردی
بدھ کو امریکی تیل کی قیمت 20 ڈالر پر واپس آئی لیکن گلوبل بینچ مارک برینٹ کروڈ جو بین الاقوامی مارکیٹ میں 60 فیصد کا حجم رکھتا ہے، وہ بھی گر کر 1999 کی کم ترین سطح پر آگیا۔
بدھ کو برینٹ کروڈ 15.98 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہوا اور امریکی صدر نے ایران کی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا حکم دے کر تیل قیمتوں کو سہارا دینے کی کوشش کی جس پر بدھ کو برینٹ کروڈ کی ٹریڈنگ 21.50 ڈالر فی بیرل پر واپس آگئی۔