18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر اپوزیشن کی تنبیہ
اسلام آباد: اپوزیشن نے منگل کو ایک بار پھر حکومت کو آئین میں اٹھارویں ترمیم یا قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ سے متعلق شقوں میں تبدیلی کے اقدام کے خلاف خبردار کیا اور کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائی سے نہ صرف قومی اتحاد کو نقصان ہوگا بلکہ یہ ملک کو آئینی بحران میں بھی ڈال دے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انتباہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے جاری کیا ہے جو انہوں نے گزشتہ دو روز میں تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور اہم رہنماؤں سے فون پر بات کرنے کے بعد ریکارڈ کروایا اور بعد میں ان کی پارٹی نے اسے تحریری شکل میں جاری کیا اور اسے اپوزیشن جماعتوں کا ‘اعلامیہ‘ قرار دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘خدا جانتا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ یا تبدیل کرنے کے بارے میں بات چیت کے ذریعے کس کے ایجنڈے پر عمل کیا جارہا ہے؟ اس سے ملک میں سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوں گے اور ملک اس مرحلے پر کسی بھی آئینی بحران کو برداشت نہیں کرسکتا‘۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا 18ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کا عزم
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اس مباحثے کے وقت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت عوام سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہے اور دوسری طرف متنازع امور کو چھیڑا جارہا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے جائزے کے حکومت کے ممکنہ منصوبے پر مشترکہ مؤقف اور حکمت عملی اپنانے کی کوشش میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سمیت اہم اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان سے بھی بات کی تھی۔
ان کا مؤقف تھا کہ ملک کو ہر طرح کے تجربات کی وجہ سے پہلے ہی بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے تجربات تھے جنہوں نے حکومت اور مارشل لاء کی صدارتی شکل دیکھی تھی کہ ملک کو آدھا کردیا گیا تھا۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ 1973 کا آئین ایک وسیع تر قومی اتفاق رائے کے بعد سیاسی جماعتوں نے منظور کیا تھا اور تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ملک کو ‘جمہوری اور پارلیمانی طرز حکومت‘ کے ذریعے چلایا جائے گا۔
ان کا مؤقف تھا کہ اگر آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا گیا تو نئی اسمبلی تشکیل دینا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آئین کے بنیادی ڈھانچے کے کسی بھی آرٹیکل کو منسوخ کیا جاتا ہے تو پھر نیا آئین بنانے کے لیے ایک اسمبلی بنانے کی ضرورت ہوگی یہ قوم کے لیے سخت امتحان ہوگا۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ملک میں موجودہ صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہم ملک کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کسی کو بھی قوم کو مزید مشکلات میں ڈالنے اور اندھیرے میں دھکیلنے کی اجازت دیں گے‘۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس:ملک میں 14700 سے زائد افراد متاثر، 3425 صحتیاب
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم یا این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی لانے کی کوئی بھی کوشش قومی اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
غیر معمولی صورتحال
دریں اثنا ویڈیو لنک کے ذریعے پارٹی کی معاشی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صحت صرف صوبوں کی ذمہ داری تھی، غیر معمولی حالات میں دنیا بھر کی مرکزی حکومتیں اپنے صوبوں کی حمایت کر رہی ہیں۔
انہوں نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران کہا کہ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں 18 ویں ترمیم پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گی اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کی کسی بھی کوشش کو پوری طاقت کے ساتھ روکیں گے۔
ایک مشترکہ بیان میں نیشنل پارٹی (این پی) کے رہنماؤں حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبد الملک اور جان محمد بلیدی نے بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلیاں لانے کے مبینہ منصوبے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور ’اس اقدام کی سخت مزاحمت‘ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ اس اقدام سے وفاق کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت کو ناقابل تصور نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: 18 ویں ترمیم: نگاہیں کہیں نشانہ کہیں
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بھی پیر کو ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے حکومت کو متنبہ کیا کہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران 18 ویں ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے کے ذریعے 18 ویں ترمیم کی توثیق اور منظوری دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے کورونا وائرس کے خلاف جنگ پر اپنی تمام تر توانائی مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور نیا پنڈورا باکس کھولنا کوئی دانشمندی نہیں ہے جس سے سیاست اور سیاستدان تقسیم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے کی کوشش بند کردے اور وفاق اور اس کے یونٹس کو اکٹھا رکھنے کے لیے توجہ دے۔