گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے میں تاخیر پر سپریم کورٹ کا اظہار تشویش
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستانی عوام کو ملنے والی آئینی ضمانتوں جیسا تحفظ نہ دیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ ’ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ گلگت بلتستان کے عوام آئین پاکستان میں ملنے والی ضمانتوں جیسا تحفظ کیوں نہیں حاصل کرسکتے جبکہ وہ پاکستان سے جڑے ہیں، ایک ہی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور ایک ہی کرنسی استعمال کرتے ہیں‘۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کردہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ترمیم کرکے آئندہ عام انتخابات کو انتخابی ایکٹ 2017 کے تحت کرانے اور نگراں حکومت تعینات کرنے کی درخواست پر سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان:کورونا وائرس کی اسکریننگ پر مامور ڈاکٹر دم توڑ گیا
گلگت بلتستان حکومت کی 5 سالہ مدت رواں سال جون کے آخری ہفتے میں ختم ہورہی ہے اور اگلے عام انتخابات 60 روز کے اندر اندر ہوں گے۔
عدالت عظمیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل اور گلگت بلتستان کی حکومت کو جمعرات کا نوٹس جاری کردیا تاہم انہیں بتایا گیا کہ وہ نہیں آسکیں گے کیونکہ وہ ایئرپورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ بدلتے ہوئے حالات میں وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ گلگت بلتستان کے شہریوں کو تمام حقوق دیے جائیں جو ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے قربانیاں بھی دی ہیں اور مشکلات بھی اٹھائی ہیں۔
وفاقی حکومت نے 17 جنوری 2019 کے فیصلے، جس میں گلگت بلتستان کے شہریوں کے حقوق طلب کیے گئے تھے، پر عمل درآمد کے لئے دو بار سپریم کورٹ سے وقت کا مطالبہ کرچکی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وفاقی حکومت سے گلگت بلتستان گورننس ریفارمز 2019 نافذ کرنے کے لیے ضروری ترمیمات لانے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
اپنی تازہ درخواست میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی کہ انصاف کے لیے گلگت بلتستان میں مجوزہ اصلاحات کے اعلان تک وفاقی حکومت کو حکومت گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ضروری ترامیم کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ نگراں حکومت قائم کرنے اور گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کرائے جاسکیں۔
اجازت انتخابی ایکٹ 2017 کے نفاذ، اس کے تحت قواعد و ضوابط کو اپنانے اور خطے میں جمہوری انتخابی عمل کو جاری رکھنے کے لیے تمام ضروری کام کرنے کی بھی اجازت طلب کی گئی تھی۔
درخواست میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کے لوگوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مختلف آپشنز کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا ہے جس پر طویل غور و خوض کی ضرورت ہے تاہم اس میں موجودہ وبائی بیماری کی وجہ سے کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن موجودہ گلگت بلتستان حکومت کی میعاد اس سال جون میں ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے نگران حکومت کے قیام اور علاقے میں انتخابات کرانے کے لیے قانونی طریقہ کار فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں پھول تشویش کا باعث کیوں؟
درخواست میں کہا گیا ہے کہ نگراں حکومت کے تقرری کے طریقہ کار کے لیے حکومت گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں کوئی بندوبست نہیں جو شفافیت اور آئین پاکستان کی اصل روح کے خلاف ہے۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے دو دہائی قبل الجہاد ٹرسٹ کیس میں گلگت بلتستان کے عوام کے درجات اور حقوق کا تعین کیا تھا جس میں وفاقی حکومت کو انہیں پاکستان کے شہریوں کا درجہ دینے کی ہدایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات میں گلگت بلتستان میں حکمرانی کامل اور عمدہ ہونی چاہیے جو سرحد پار سے بھی لوگوں میں اعتماد پیدا کرے، گلگت بلتستان کو ایک اہم حصہ کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن کچھ سیاسی اور بین الاقوامی وجوہات کی بنا پر اسے "ہمارے پاس موجود ڈھانچے کا حصہ" نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اگر گلگت بلتستان کے لوگوں کے مفاد میں عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام رکاوٹ بن رہے ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے ساتھ شیئر کریں۔