’مرد نہ ہی کورونا وائرس، سعودی خواتین کو اب کوئی پیچھے نہیں چھوڑ سکتا‘
گزشتہ چند سال سے خواتین کو خود مختاری دینے والے ملک سعودی عرب میں بھی اگرچہ اس وقت کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نافذ ہے، تاہم وبا کے پھیلاؤ کے باوجود درجنوں خواتین نے ملازمت اختیار کی ہے۔
حالیہ چند ماہ میں ملازمتیں حاصل کرنے والی ہزاروں خواتین میں نوجوان روع الموسیٰ بھی شامل ہیں، جنہیں امید ہے کہ کورونا کی وبا اور ان کے مرد مالکان بھی انہیں اس کے شوق سے الگ نہیں کر سکیں گے۔
کالج سے ڈگری یافتہ 25 سالہ روع الموسی ملک میں قدامت پسند نظام کے باعث کئی سال سے ملازمت کی تلاش میں تھیں لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم ملک میں حالیہ چند سال میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بعد جہاں انہوں نے گریجویشن کیا، وہیں وہ ملازمت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وبا کے دنوں میں سعودی خواتین ہراسانی کے قصے کیوں بتا رہی ہیں؟
انہوں نے دارالحکومت ریاض کے ایک سرکاری ادارے میں شام کی شفٹ میں رسیپشنسٹ کی ملازمت حاصل کرلی، جو 10 خواتین اور 6 مرد ملازمین کے عملے پر مشتمل ایک چھوٹا سا ادارہ ہے۔
ویسے تو کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور روع الموسیٰ بھی اس لاک ڈاؤن کے باعث اپنے گھر میں محصور ہوگئی ہیں، اس کے باوجود انہیں یقین ہے کہ خواتین کا ملازمت کرنے کا ٹرینڈ اس لاک ڈاؤن سے متاثر نہیں ہوگا۔
اس حوالے سے روع الموسیٰ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تعلیم حاصل کرنے کے دوران بہت محنت کی اور اچھے نتائج لانے کی کوشش کی تاکہ میں آگے جاکر ملازمت کرسکوں، کیوں کہ یہی سب سے بہترین انتخاب تھا لیکن گزشتہ 4 سالوں میں کافی بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’اب میری تقریباً ساری سہیلیاں ملازمت پیشہ ہیں اور اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی نوکری نہیں ملتی تو بڑا عجیب لگتا ہے‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ 4 دہائیوں تک سعودی عرب میں خواتین کو نوکریاں حاصل کرنے کے لیے محدود مواقع فراہم کیے گئے، ان میں کچھ خواتین کو صرف صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ملازمت کی اجازت تھی۔
اس کے علاوہ جابرانہ سرپرستی کے نظام نے مرد رشتہ داروں کو بھی خواتین کی خواہشات پر اعتراضات کرنے کا حق دیا۔
لیکن 2016 کے وسط میں تبدیلی اس وقت آئی جب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے ’وژن 2030‘ منصوبے کا آگاز کیا جس کا مقصد سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے کم کرکے دیگر شعبوں پر منتقل کرنا تھا۔
بعدازاں سعودی عرب میں تفریحی شعبوں اور سیاحت کو فروغ دیا گیا، اس کے علاوہ خواتین پر سے ملازمت نہ کرنے کی پابندیاں بھی ہٹائی گئی جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے ملازمت اختیار کی۔
یہ وقت بھی گزر جائے گا
فاطمہ الدخیل نامی خاتون کو کئی ماہ نوکری کی تلاش کے بعد سعودی شہر کھوبار میں ایک فرانسیسی کمپنی میں سیلز مینیجر کی حیثیت سے کام ملا، لیکن صرف ہفتوں بعد ہی سعودی عرب نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کیے۔
خلیجی ریاستوں میں اب تک سب سے زیادہ کورونا کیسز کی تصدیق سعودی عرب میں ہوئی، اب تک اس وائرس کے 17 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے جبکہ 139 اموات بھی ہوئیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ اور دیگر ہزاروں افراد دفتر چھوڑنے اور گھر سے کام کرنے پر مجبور ہیں، اس وبا سے پھیلی مایوسی کے باوجود فاطمہ کو یقین ہے کہ ملک بھر کی خواتین کیریئر کا حصول جاری رکھیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: 'آزادی کا جشن' منانے کے لیے سعودی خواتین نے سگریٹ نوشی شروع کردی
25 سالہ فاطمہ الدخیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میری تمام سہیلیاں ملازمت پیشہ ہیں اور سب کو اُمید ہے کہ یہ وائرس اور بحران جلد ختم ہوجائے گا‘۔
سعودی عرب کی خواتین تقریباً اب ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں، وہاں کی خواتین اب بینکرز، کاروبار مالکان، مالیاتی اداروں کی سربراہ، سول ڈیفینس ممبر، فوڈ کارٹ اور جوتا فروش ہیں۔
سعودی عرب کی 23 سالہ سیلز وومن سارہ الدوسری ریاض کے وسط میں واقع پینوراما مال میں 3 خواتین کے زیر انتظام کپڑوں کی دکان میں کام کرتی ہیں۔
اے ایف پی سے بات کرتے ان کا کہنا تھا کہ ’نوکری پشہ خواتین کے بارے میں لوگ غلط رائے قائم کرتے تھے لیکن اب یہ ماضی کی بات ہے، نئے گاہک ہم سے آکر یہی کہتے ہیں کہ انہیں ہم پر فخر ہے‘۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سعودی عرب میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد 2019 کی تیسری سہ ماہی میں 10 لاکھ 3 ہزار تک پہنچ گئی، جو کل افرادی قوت کا 35 فیصد ہے جبکہ سال 2015 میں یہ تعداد 8 لاکھ 16 ہزار تھی۔
خواتین کی دنیا؟
سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد وہاں نمایاں سماجی و معاشی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔
اب وہاں پر خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت بھی حاصل ہے اور وہاں خواتین اب سینما گھروں میں جانے سمیت اداکاری میں جوہر بھی دکھاتی ہیں اور غیر محرم مرد کے ساتھ کام بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
سعودی عرب میں ایسی تبدیلیوں کے لیے انسانی و خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سالوں تک جدوجہد کی اور کئی رہنماؤں کو قید بھی کیا گیا۔
تاہم سعودی خواتین کی جدوجہد رنگ لائی اور انہیں کئی سال بعد خود مختاری ملیں جس کے بعد بیرون ممالک میں رہنے والی پڑھی لکھی سعودی خواتین واپس ملک آئیں۔
اور ایسی ہی خواتین میں سامبا فنانشل گروپ کی چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) رانیہ نشر بھی شامل ہیں۔
رانیا نشر وہ پہلی سعودی خاتون ہیں جو اتنے بڑے کاروباری عہدے پر تعینات ہوئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سعودی عرب میں خواتین کو خود مختار دینے کا مطلب ایک پورے خاندان کو خودمختار کرنا ہے۔
ان کے مطابق سعودی عرب کی خواتین ملک کے محفوظ اور بہتر مستقبل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔