• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

قومی توانائی میں ہائیڈرو پاور کا حصہ تیزی سے کم ہونے کا امکان

شائع April 27, 2020
حکومت نے سال 2040 کے لیے بجلی کی طلب کا تخمینہ کم کر کے 3 لاکھ 90 ہزار 240 گیگا واٹ آور کردیا تھا—تصویر: شٹر اسٹاک
حکومت نے سال 2040 کے لیے بجلی کی طلب کا تخمینہ کم کر کے 3 لاکھ 90 ہزار 240 گیگا واٹ آور کردیا تھا—تصویر: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو فراہم کردہ منصوبے کے مطابق قومی توانائی کے مرکب میں سستی ہائیڈو پاور کا حصہ سال 2040 تک 30 فیصد سے کم ہو کر 20 فیصد ہونے کا امکان ہے۔

اس کی وجہ نجی شعبے کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ حکومت کی جانب سے حرارتی توانائی (تھرمل پاور) پیدا کرنے والوں کے ساتھ معاہدوں کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کی کوشش کی جارہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں معاشی شرح نمو کم رہنے کی پیش گوئی کی وجہ سے حکومت نے سال 2040 کے لیے بجلی کی طلب کا تخمینہ کم کر کے 3 لاکھ 90 ہزار 240 گیگا واٹ آور (جی ڈبلیو ایچ) کردیا تھا جبکہ گزشتہ برس جون میں یہ تخمینہ 4 لاکھ 58 ہزار جی ڈبلیو ایچ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پانی سے بجلی بنانے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آگیا

اسی طرح نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے تخمینے کے مطابق بجلی کی پیداواری صلاحیت گزشتہ منصوبے کے تحت 98 ہزار میگا واٹ تک بڑھانے کے بجائے 62 ہزار میگا واٹ تک بڑھانا پڑے گی۔

یہ تخمینے این ٹی ڈی سی کی جانب سے نیپرا کی منظوری کے لیے جمع کروائے گئے انڈیکیٹِو جنریشن کیپیسٹی ایکسپشن پلان (آئی جی سی ای پی) کا حصہ ہیں۔

مذکورہ منصوبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ 20 سے 27 برسوں میں ہائیڈرو پاور صلاحیت میں اضافہ سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری سے ہوگا جس میں ڈیمز شامل ہیں۔

منصوبے میں توانائی کے مجموعی مرکب میں ہائیڈرو پاور 30 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو مالی سال 2035 تک کم ہو کر 26 فیصد جبکہ سال 2040 تک مزید کمی کے ساتھ 20 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: توانائی کمپنی کو نادہندہ ہونے سے بچانے کیلئے وزیراعظم کی مداخلت

بظاہر یہ وہی صورتحال معلوم ہورہی ہے جو 1990 میں تھی جب حکومت (تھرمل) انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے بلند قیمتوں (6 پیسے فی یونٹ) اور درکار صلاحیت سے زیادہ کے کانٹریکٹس پر لڑ رہی تھی وہیں نجی شعبے کی سرمایہ کاری عارضی طور پر معطل ہوگئی تھی۔

جس کے بعد اُس وقت کی حکومت نے ہائیڈرو پاور پلانٹس کے لیے اپنے اعلان کردہ 4.7 پیسے فی یونٹ کے ٹیرف مسترد کیے اور اس کے بجائے سرمایہ کاروں سے 3.3 پیسہ فی یونٹ کا ٹیرف تسلیم کرنے یا چھوڑ دینے کا کہا۔

نتیجتاً ایک درجن سرمایہ کاروں نے واپسی کی راہ اختیار کی اور ہائیڈرو پاور صلاحیت میں سرکاری شعبے کے سوا کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: عدم ادائیگی پر پاور کمپنیوں کو نادہندگی کا خطرہ

دوسری جانب محکمہ توانائی یا وزارت توانائی میں افسر شاہی جنہوں نے گزشتہ 10 برسوں میں توانائی کی 90 فیصد پیداوار درآمد شدہ پلانٹس سے مقرر کی اور انہیں’میرٹ برقرار‘ رکھنے کی قومی پالیسی کے برخلاف ’لازمی چلائے جانے‘ کی حیثیت دی، اس نے دوبارہ خسارہ میں چلنے والے، ناکارہ اور بدعنوان سرکاری شعبے کے اداروں سے توجہ ہٹانے کے لیے اسی قسم کا ماحول بنانا شروع کردیا ہے۔

آئی جی ای سی پی کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 2040 تک طلب پوری کرنے کے لیے مجموعی طور پر 79 ہزار 449 میگا واٹ کی صلاحیت کے منصوبے شامل کرنے ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024