وہ جاپانی جزیرہ جو جلد لاک ڈاؤن اٹھانے کے بعد دنیا کے لیے وارننگ بن گیا
جاپان کا جزیرہ ہوکائیدو نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی وبا کے حوالے سے دنیا کو ایک سبق دے رہا ہے کہ بہت جلد لاک ڈاؤن ختم کرنا بہت زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
شمالی جاپان میں واقع اس جزیرے نے وبا کے آغاز پر ہی فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے 3 ہفتے کا لاک ڈاؤن لگا دیا تھا مگر پھر گورنر نے پابندیاں ختم کردیں، جس کے بعد بیماری کی دوسری لہر نے اسے بری طرح متاثر کیا۔
لاک ڈاؤن ختم کرنے کے 26 دن بعد ہی جزیرے میں دوبارہ لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔
مقامی حکومت کے ردعمل میں تعاون کرنے والے ہوکائیدو میڈیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر کیوشی ناگاسی کا کہنا ہے کہ اب وہ خواہش کرتے ہیں کہ کچھ مختلف کیا ہوتا ؛میں اب پچھتاتا ہوں، ہمیں پہلے لاک ڈاؤن کو ختم نہیں کرنا چاہیے تھا'۔
ہوکائیدو کا تجربہ اب دنیا بھر کے رہنماؤں کے لیے سبق ہے جو لاک ڈاؤن کو نرم کرنے پر غور کررہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کاروباری اداروں کے دباؤ پر بہت جلد لاک ڈاؤن ختم کرنا وبا کو مزید تیز کرسکتا ہے۔
ہوکائیدو یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی سیاست کے نائب سربراہ کازوتو سوزوکی نے کہا 'ہوکائیدو سے ثابت ہوتا ہے، مثال کے طور پر امریکا میں انفرادی طور پر گورنرز کی جانب سے ریاستوں کو کھولا جارہا ہے وہ بہت خطرناک ہے، یقیناً آپ بین الریاستی ٹریفک کو بند نہیں کرسکتے، مگر آپ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے، ہم اب جانتے ہیں کہ اگر پہلی لہر کو کنٹرول بھی کرلیتے ہیں تو بھی پرسکون ہونے کی ضرورت نہیں'۔
ہوکائیدو کی آبادی 53 لاکھ ہے اور یہ جاپان کا پہلا حصہ تھا جہاں یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی تھی اور فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا گیا۔
جاپان میں اب تک 12 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے مگر کیسز کی تعداد میں گزشتہ 2 ہفتے کے دوران دوگنا اضافہ ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔
ابتدائی ایکشن
ہوکائیدو میںن 31 جنوری کو سالانہ اسنو فیسٹیول منعقد ہوا تھا جس میں 20 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، جن میں سے بیشتر چینی سیاح تھے جو نئے قمری سال کے موقع پر تعطیلات منارہے تھے۔
اس فیسٹیول کے دوران مقامی ڈاکٹر نے کورونا وائرس کے پہلے مریض کو دیکھا جو ووہان سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون تھی، جس کے بعد متعدد چینی سیاح بیمار ہوگئے اور بہت جلد وائرس مقامی افراد میں پھیلنا شروع ہوگیا۔
پہلے کیس کے ایک ماہ بعد یعنی 28 فروری کو کیسز کی تعداد 66 تک پہنچ گئی تھی اور اس موقع پر گورنر نے ریاستی ایمرجنسی کا اعلان کیا۔
اسکولوں کو بند کردیا گیا جبکہ متعدد ریسٹورنٹس اور کاروبار پر بھی پابندی عائد کی گئی، جس کی عوام نے بھی پابندی کی اور خود کو گھروں میں بند کرلیا۔
تحفظ کا غلط احساس
مارچ کے وسط میں بحران ختم ہوتا نظر آتا ہے اور نئے کیسز نہ ہونے کے برابر رہ گئے، مگر کاروباری اداروں کی جانب سے شکایات بڑھنے لگیں۔
کاروباری حلقوں نے ریاستی ایمرجنسی کی مخالفت شروع کردی اور اس پر 18 مارچ کو گورنر نے پابندیوں کو نرم کردیا۔
حکومتی ردعمل میں مدد فراہم کرنے ڈاکٹر ناگاسی کے مطابق اس وقت حکام کو وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور یہ نہیں جانتے کہ یہ کتنی تیزی سے پھیلتا ہے۔
سائنسی ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اپنی سفارشات اس خیال پر متب کیں کہ کورونا وائرس انفلوائنزا کی طرح پھیلتا ہے اور اب ڈاکٹر ناگاسی کو پچھتاوا ہے کہ ایسا کیوں کیا۔
دوسری لہر پہلے سے زیادہ بڑی تھی
ڈاکٹر ناگاسی کے مطابق پابندیاں اٹھانے کا اعلان 3 روزہ تعطیلات سے قبل کیا گیا اور شہری گلیوں میں نکل آئے اور ریسٹورنٹس میں جمع ہوکر کئی ہفتوں کی قید کے خاتمے کا جشن منایا، جس سے ممکنہ طور پر وائرس کی دوسری لہر پھیلنا شروع ہوئی۔
ہوکائیدو میں پابندیوں کو نرم کرنے سے جاپان کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں نے اس بیماری کو زیادہ خطرناک سمجھنا چھوڑ دیا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔
اس سے بھی دوسری لہر میں شدت آئی اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے 3 ہفتے بعد ایک دن میں ریکارڈ 18 کیسز سامنے آئے۔
14 اپریل کو پھر دوسری بار لاک ڈاؤن لگا دیا گیا اور دوسری لہر میں 279 کیسز رپورت ہوئے جو پہلی لہر کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہیں، جبکہ رواں ہفتے بدھ تک یہ تعداد 495 تک پہنچ گئی تھی۔
اس بار کاروباری حلقوں نے بھی سخت لاک ڈاؤن کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا۔
ڈاکٹر ناگاسی نے کہا کہ جزیرے نے سخت سبق سیکھ لیا ہے اور جب تک ویکسین یا دوا سامنے نہیں آجاتی، ہر ایک کو ذاتی ذمہ داری کا ثبوت دیکر سمجھنا ہوگا ممکنہ طور پر اگلے سال تک محفوظ طریقے سے اس طرح کے لاک ڈاؤن کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔