جرمنی میں لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرنے والے درجنوں افراد گرفتار
جرمنی میں ایک عرصے سے جاری لاک ڈاؤن کے خلاف ایک ہزار سے زائد افراد نے احتجاج کیا اور احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا۔
دارالحکومت برلن میں ایک ہزار سے زائد افراد نے لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ریلی نکالی جہاں حکام کی جانب سے انتباہ جاری کیے جانے کے باوجود مستقل چند ہفتوں سے اس احتجاج کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت: قرنطینہ سینٹر میں خاتون کا گینگ ریپ
اس احتجاج میں بائیں بازوں کے افراد کی اکثریت موجود تھی لیکن حیران کن طور پر اس مرتبہ احتجاج میں دائیں بازو کے افراد بھی موجود تھے۔
مظاہرین کو آگے بڑھتا دیکھ کر پولیس نے لگزمبرگ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کے بعد شرکا قریبی سڑکوں پر جمع ہونے لگے۔
پولیس نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کی جانے والی احتیاطی تدابیر کی روشنی میں یہ احتجاج جاری کردہ ہدایات اور قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یہ بھی پڑھیں: مکہ کے علاوہ سعودی عرب بھرمیں کرفیو جزوی طور پر اٹھا لیا گیا
چند مظاہرین نے شرٹ زیب تن کر رکھی تھیں جس میں چانسلر اینجلا مرکل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے جبکہ دیگر افراد لاک ڈاؤن سے آزادی کے نعرے لگا رہے تھے۔
اس کے علاوہ چند افراد نے ہاتھوں میں پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے جس میں درج تھا کہ ادویات بنانے والی کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی جائے۔
ان مظاہرین نے وائرس سے لاحق خطرات کو مسترد کرتے ہوئے لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی لاک ڈاؤن کے باعث عوام کی بے چینی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ان مطالبات کے باوجود جرمنی میں چانسلر اینجلا مرکل کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
مزید پڑھیں: چین کی کامیابی، ووہان کے ہسپتالوں میں کورونا کے تمام مریض صحتیاب
اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے جرمن چانسلر کی حکمت عملی کو بھرپور پذیرائی ملی جس کی بدولت اٹلی، اسپین، برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جرمنی میں ہلاکتیں نسبتاً کم ہوئیں۔
ان تینوں ممالک میں اب تک 20 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن جان ہوپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی میں اب تک وائرس سے 5 ہزار 877 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔