• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

اکثر ممالک میں کورونا وائرس کا تیسرا ماہ تباہ کن کیوں؟

شائع April 26, 2020
— اے پی فوٹو
— اے پی فوٹو

پاکستان میں نئے نوول کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق 26 فروری کو ہوئی تھی اور اب 2 ماہ بعد ملک میں یہ تعداد 13 ہزار کے قریب ہے۔

اب تک کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے 265 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ صوبوں کی جانب سے اس وبا کی روک تھام کے لیے جدوجہد جاری ہے۔

خیال رہے کہ جب پاکستان میں اس وبا کو ایک مہینہ ہوا تو کیسز کی تعداد11 سو سے کچھ زیادہ جبکہ محض 9 ہلاکتیں ہوئی تھیں، یعنی 30 دن میں کیسز اور اموات کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹرز مئی کے مہینے کو پاکستان کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں، اور اس کے پیچھے چھپی وجہ دیگر ممالک میں وبا کے تیسرے مہینے میں شرح اموات میں کئی گنا اضافہ ہونا ہے۔

دیگر ممالک میں تیسرے ماہ کے دوران کیسز کی شرح

بھارت:
رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

دور جانے سے پہلے بھارت کو ہی دیکھ لیتے ہیں وہاں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا پہلا کیس ریاست کیرالہ میں 30 جنوری کو سامنے آیا تھا اور وہاں 30 مارچ کو 2 مہینے مکمل ہوئے، اس عرصے میں وہاں مصدقہ کیسز کی تعداد 1259 اور اموات 38 تھیں۔

اب تیسرے مہینے کے 26 دن میں مصدقہ کیسز کی تعداد 25 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جبکہ 780 ہلاکتیں ہوچکی ہیں، یعنی تیسرے ماہ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

امریکا:
رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اگر امریکا میں دیکھا جائے تو وہاں نئے نوول کورونا وائرس کا پہلا کیس 20 جنوری کو سامنے آیا تھا جس کی تصدیق ایسے فرد پر ہوئی تھی جو چین سے واپس آیا تھا۔

20 مارچ کو وہاں 2 مہینے مکمل ہوئے تھے اور وہاں مصدقہ کیسز کی تعداد 18 ہزار 170 جبکہ اموات 241 تک پہنچ گئی تھیں۔

اب وہاں 3 ماہ اور 5 دن کا عرصہ ہوچکا ہے اور یہ تیسرا مہینہ ہلاکت خیز ثابت ہوا کیونکہ کیسز کی تعداد ساڑھے 9 لاکھ سے زائد ہے جبکہ 53 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

یعنی کہ دوسرے ماہ میں محض 241 اموات ہوئی تھیں جبکہ تیسرے ماہ میں مرنے والوں کی تعداد کئی گنا اضافے کے بعد 53 ہزار سے زائد ہوگئی۔

جرمنی:
اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

جرمنی میں اس وائرس کا پہلا کیس 27 جنوری کو سامنے آیا تھا اور 27 مارچ کو یعنی 2 ماہ بعد یہ تعداد 36 ہزار 508تک پہنچ گئی تھی جبکہ 198ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

اب وہاں 3 ماہ مکمل ہورہے ہیں اور وائرس کے پھیلنے کی رفتار میں نمایاں کمی آچکی ہے مگر مصدقہ کیسز ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد ہیں جبکہ 5 ہزار 835 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

یعنی کہ جرمنی میں دوماہ کے دوران 198افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ تیسرے ماہ میں 5 ہزار 835 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

اسپین:
اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

اس وبا سے متاثرہ چند بڑے ممالک میں سے ایک اسپین میں پہلا کیس 31 جنوری کو سامنے آیا تھا۔

31 مارچ کو جب 2 ماہ مکمل ہوئے تو مصدقہ کیسز کی تعداد 94 ہزار 417 تک پہنچ گئی تھی اور ہلاکتیں8189 تھی۔

اب وہاں 3 ماہ ہورہے ہیں اور کیسز کی تعداد 2 لاکھ 19 ہزار سے زیادہ جبکہ ہلاکتیں 22 ہزار 524 تک پہنچ چکی ہیں۔

فرانس:

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

فرانس پہلا یورپی ملک تھا جہاں کووڈ 19 کا کیس 24 جنوری کو سامنے آیا تھا اور 2 ماہ بعد یہ تعداد 22ہزار تک پہنچ گئی تھی جبکہ ہلاکتیں 1100 تھیں۔

ایک ماہ بعد اب مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار جبکہ ہلاکتیں 22 ہزار 614 ہیں۔

یہ تو صرف چند مثالیں ہیں، درحقیقت بیشتر ممالک میں اس وبا کا تیسرا مہینہ کیسز اور اموات کی تعداد کے لحاظ سے بہت خطرناک ثابت ہوا ہے اور پاکستان بھی اب اس مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔

تیسرا مہینہ شرح میں اضافے کا باعث کیوں بنتا ہے؟

شٹر اسٹاک فوٹو
شٹر اسٹاک فوٹو

اس کے بارے میں ابھی سائنسدانوں نے کوئی باقاعدہ تحقیق تو نہیں کی اور نہ ہی جانچ پڑتال ہوئی ہے مگر غور کیا جائے تو چند عوامل ضرور نظر آتے ہیں۔

درحقیقت چین کے سوا کسی بھی ملک میں وبا کا آغاز بیرون ملک سے آنے والے کسی فرد سے ہوا ہے اور پہلے کیس کے بعد پھیلنے کی شرح کئی ہفتوں تک بہت کم ہوتی ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ پکڑ میں نہیں آتی۔

مقامی طور پر وائرس پھیلنے کا آغاز عموماً ایک سے ڈیڑھ مہینے کے اندر شروع ہوجاتا ہے اور یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب روزانہ مصدقہ کیسز کی تعداد 2 کی جگہ 3 ہندسوں میں نظر آنے لگتی ہے۔

لگ بھگ ہر ملک کو ہی ٹیسٹنگ کٹس کی کمی کا سامنا ہے اور عموماً ایسے مریضوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن میں علامات بہت واضح ہو یا حالت خراب ہو۔

مگر سائنسدان ثابت کرچکے ہیں کورونا وائرس کے 30 سے 50 فیصد کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں یعنی وہ بیمار نظر نہیں آتے مگر وائرس کو صحت مند افراد میں منتقل کردیتے ہیں۔

ایسے کیسز اس وقت ہی پکڑ میں آتے ہیں جب ان کے قریبی افراد بیمار ہوتے ہیں اور پھر پورے گھر کے ٹیسٹ میں بغیر علامات والے مریضوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

بظاہر صحت مند نظر آنے والے یہ افراد کتنے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، اس بارے میں مستند طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ سائنسدانوں کو اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں۔

مگر کسی بھی ملک میں جب کیسز بڑھتے ہیں تو روزانہ مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگتا ہے اور یہ شرح ڈیڑھ سے 2 مہینے بعد بہت تیز ہونے لگتی ہے۔

پاکستان بھی اب اس مرحلے میں داخل ہورہا ہے بلکہ ہوچکا ہے کیونکہ اب یہاں روزانہ کیسز کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اسی لیے ڈاکٹرز بھی مئی کے مہینے کو پاکستان میں اس بیماری کے حوالے سے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔

مگر کیا اموات کی شرح کو بڑھنے سے روکنا ممکن ہے؟

جرمنی میں ایک شخص کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے، اے ایف پی فوٹو
جرمنی میں ایک شخص کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے، اے ایف پی فوٹو

درحقیقت ایسا ممکن ہے جرمنی، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک میں اس وبا سے اموات کی شرح کو بڑھنے نہیں دیا گیا۔

جرمنی میں جیسے اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ مصدقہ کیسز ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہیں اور اس لحاظ سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے مگر اموات کی تعداد اٹلی، اسین، فرانس، برطانیہ اور امریکا سمیت متعدد ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

جرمنی میں ہلاکتوں کی شرح اتنی کم کیوں ہے ؟ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ بڑے پیمانے پر مریضوں کی ٹیسٹنگ ہے۔

جنوری میں ہی جرمنی ان چند اولین ممالک میں سے ایک تھا جہاں کووڈ 19 کی تشخیص کے قابل اعتماد طریقہ کار کو تیار کرلیا گیا تھا اور چونکہ طبی سہولیات ریاستوں کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو نجی کمپنیوں نے بہت تیزی سے ٹیسٹوں کی بڑے پیمانے پر تیاری کی۔

کم از کم 14 لاکھ ٹیسٹنگ کٹس کو عالمی ادارہ صحت کے ذریعے دنیا بھر میں فروری کے آخر تک تقسیم کیا گیا۔

اس وقت امریکا میں حالات بالکل مختلف تھے اور مارچ کے اوائل میں وہاں حکومتی طور پر کچھ نجی کمپنیوں کو اپنے ٹیسٹ تیار کرنے کی اجازت دی گئی، جس کی وجہ سے ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہوئی۔

ڈاکٹر لیام اسمتھ کا کہنا تھا کہ چونکہ جرمنی نے ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو وبا کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے بہتر بنایا، تو اسے معتدل کیسز کی تشخیص کا زیادہ موقع ملا جو وائرس کو زیادہ پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں، ویسے بھی جتنی جلدی تشخیص ہوگی، کیس کی شدت میں اضافے کا امکان بھی کم ہوگا، جس سے اموات کی شرح بھی کم ہوگی۔

جنوبی کوریا اور تائیوان کی قابل تقلید حکمت عملی

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

جنوبی کوریا چین کے بعد دوسرا ملک تھا جہاں یہ وائرس تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تھا مگر بغیر سخت لاک ڈاؤن کے ہی اس نے بیماری کو پھیلنے سے روک دیا تھا۔

اب جنوبی کوریا کی حکومت نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جسے فلیٹننگ دی کرو آف کووڈ 19: دی کورین ایکسپیرئینس کا نام دیا گیا ہے، جس میں وہاں گزشتہ 3 ماہ کے دوران کورونا کے ردعمل کا جامع تجزیہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے کامیاب ردعمل کا راز اطلاعات، کمیونیکشن ٹیکنالوجی کا استعمال، بڑے پیمانے پر ٹیسٹ، متاثرہ افراد کے تعلق میں رہنے والے افراد کا سراغ اور وبا کے حوالے معلومات کو لوگوں تک پہنچانے میں چھپا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا 'جنوبی کوریا کی جانب سے کامیابی سے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو 20 دن میں روک دیا گیا تھا اور وہ بھی سخت ترین اقدامات کے بغیر، جن کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت کو روکا جاتا ہے'۔

تائیوان نے بھی کورونا کے سامنے آتے ہی حفاظتی انتظام تیز کرتے ہوئے بیماری کی علامات والے افراد کو گھروں تک محدود کردیا جب کہ مشکوک افراد کے بروقت ٹیسٹ بھی کیے۔

علاوہ ازیں تائیوان نے چینی ماڈل سمیت جنوبی کوریا کے ماڈل کو بھی اپنایا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ بیرون ممالک سے آنے والا ہر شخص 15 دن تک گھر میں محدود رہے۔

اس ضمن میں تائیوان نے بھی ہر شخص کی ٹیکنالوجی کے ذریعے نگرانی کی اور ہر شخص پر ان کے موبائل فون کی مدد سے نظر رکھی اور جس بھی شخص کا موبائل 15 منٹ سے زیادہ بند ہوتا تو اسے سخت وارننگ دینے سمیت دوبارہ ایسا کرنے پر گرفتاری کا خوف بھی دیا گیا، جس وجہ سے وہاں سے کورونا کے کیسز آنا کم ہوئے۔

بدقسمتی سے کورونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کا شمار ایشیا کے ان ممالک میں ہے جہاں اب بھارت کے بعد تیزی سے کیسز سامنے آرہے ہیں ۔

پاکستان میں مارچ کے وسط میں ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا جبکہ مذہبی اجتماعات پر پابندی سمیت ٹرانسپورٹ و کاروباری اداروں کو بھی بند کردیا گیا ، مگر اس جزوی بندش میں بھی بتدریج کمی آتی چلی گئی۔

دوسری جانب ٹیسٹنگ کی شرح میں بھی اتنے عرصے میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا اور کم ٹیسٹوں کے باوجود اتنے کیسز کی تصدیق سے عندیہ ملتا ہے کہ کئی گنا مریض ایسے ہوں گے جن میں اس کی تشخیص نہیں ہوئی۔

رمضان کے مہینے میں سماجی دوری کی کوششوں کو متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے جس سے بھی کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے، عوام کی اپنی احتیاط ہی انہیں اس وبائی مرض سے بچاسکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024