مساجد میں صرف متعین لوگ تراویح پڑھیں گے، وزیر اعلیٰ سندھ
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز کی طرح رمضان میں مساجد میں تراویح بھی صرف متعین لوگ پڑھ سکیں گے جبکہ باقی لوگ گھروں میں پڑھیں گے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں مراد علی شاہ نے کہا کہ 'کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ روز سندھ کے معروف ڈاکٹرز نے پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ جس طریقے سے یہ بیماری پھیل رہی ہے اگر بڑے اجتماعات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ اور پھیل جائے گی اور ڈاکٹرز و ہسپتال بھی بے بس ہوجائیں گے۔'
انہوں نے کہا کہ 'آج پنجاب میں بھی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے ڈاکٹرز نے ان ہی خدشات کا اظہار کیا، جب میں نے ڈاکٹرز کے خدشات دیکھے تو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بات کی اور انہیں اجتماعات کے حوالے سے بتایا کہ جو شاپنگ سینٹرز ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے انہیں فوری سیل کردیا ہے، چھوٹے تاجروں نے بھی اتفاق کیا ہے کہ صرف آن لائن ڈیلوری ہوگی جبکہ مساجد میں اجتماعات کے حوالے سے صدر نے علما سے ملاقات کے بعد ایس او پیز بنائے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر عارف علوی نے مجھے بتایا کہ مساجد کے حوالے سے فیصلہ اٹل نہیں ہے اور یہ حالات کی مناسبت سے تبدیل ہوسکتا ہے۔'
مراد علی شاہ نے کہا کہ 'صدر سے بات کرنے کے بعد میں نے ڈاکٹرز سے صلح مشورہ کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ اگلے 10 سے 15 روز بہت زیادہ مشکل ہونے والے ہیں، جس کے بعد ہم نے کہا کہ مساجد جیسے پہلے کھلی تھیں ویسے ہی کھلی رہیں لیکن جمعہ کو 12 سے 3 بجے تک سخت لاک ڈاؤن ہوگا جبکہ تراویح کے لیے بھی یہی طریقہ اپنایا جائے گا کہ مساجد میں صرف متعین یعنی 3سے 5 لوگ تراویح پڑھیں گے باقی لوگ گھروں میں پڑھیں گے۔'
مزید پڑھیں: ڈاکٹرز کا سخت لاک ڈاؤن کا مطالبہ،علما سے مساجد کھولنے کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل
انہوں نے کہا کہ 'یہ بات میں نے صدر پاکستان سے کہی اور انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت جو بہتر سمجھتی ہے وہ فیصلہ کرے، جبکہ ہم نے ماہرین اور ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'مشکل فیصلے بھی حکومتوں نے کرنے ہے جو ان کہ ذمہ داری ہے، اس وقت جو سمجھ آرہی ہے اور ماہرین کی رائے کے مطابق ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے علمائے کرام سے بھی حکومت سے تعاون کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر یہ فیصلہ غلط ہے تو اللہ معاف کرنے والا ہے، اللہ کرے ہمیں آگے جو خطرات نظر آرہے ہیں وہ نہ آئیں اور رمضان کے دوسرے یا تیسرے عشرے میں مساجد آباد ہوں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے پاکستان میں اور دنیا بھر میں اس وبا پر کچھ قابو پالیا گیا ہو۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے ہسپتال بھر رہے ہیں، روز سیکڑوں مریض آرہے ہیں، ہم سہولیات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا صحت کا نظام بیٹھ جائے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ وفاقی حکومت کے فیصلے سے بلکل انحراف نہیں ہے، صدر پاکستان جنہوں نے علما کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا تھا ان کی مشاورت ہمارے فیصلے میں شامل ہے اور انہوں نے ٹوئٹ میں واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ فیصلے میں گنجائش موجود تھی کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوں یا خراب ہونے کی طرف جاتے ہوئے نظر آئیں تو فیصلے کو بدلا جاسکتا ہے۔'
واضح رہے کہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے کورونا وائرس کے باعث حالات مزید خراب ہونے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو تجربے دنیا بھر میں ہوچکے ہیں وہ دوبارہ نہ کریں ورنہ ہمیں بھی اٹلی اور اسپین جیسے حالات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: خدارا ملک کو ایسے امتحان میں نہ ڈالیں کہ ہم سنبھل نہ پائیں، ڈاکٹرز
پی ایم اے کے سینئر ڈاکٹروں نے کورونا وائرس کے حوالے سے کہا کہ 'اس وقت دنیا میں جو حالات ہیں اور پاکستان میں حکومت جو فیصلے کررہی ہے اس سے ان کے اپنے اکابرین کے اعلانات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں'۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ 'ہمیں علمائے کرام کے ساتھ دیگر مذاہب کا بھی احترام ہے، رمضان ہمارے سب کے دلوں کی آرزو ہے اور اللہ کے آگے سربسجود ہونا چاہیں گے لیکن ایسا کوئی فعل نہیں کریں جس سے خدانخواستہ یہ ہمارے آفت اور اذیت میں اضافے کا باعث بنے گا'۔
گزشتہ روز کراچی کے سینئر ڈاکٹرز نے پریس کانفرنس کے دوران انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے کورونا وائرس کے کیسز تیزی سے بڑھیں گے جس سے ملک کا پہلے سے کمزور صحت کا نظام بیٹھ جائے گا۔
انہوں نے حکومت سے لاک ڈاؤن سخت کرنے کا مطالبہ اور علما سے مساجد کھولنے کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی تھی۔