دیگر بیماریوں میں مبتلا مریض کورونا وائرس کے باعث مشکلات کا شکار
کراچی: یہ فرض کرنا بھی مشکل ہے کہ عارضہ قلب میں مبتلا ایک 70 سال سے زائد عمر کے شخص کو شدید درد ہونے کے باوجود اس وسیع عریض شہر میں کوئی ایک ایسا ہسپتال نہیں ملا جو انہیں داخل کر کے ان کا علاج کرتا لیکن محمد سعید کو حال ہی میں اس تجربے سے گزرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ کس طرح وہ اپنے چچا کو نارتھ ناظم آباد میں ایک کے بعد ایک نجی ہسپتال میں ہنگامی طبی امداد کے لیے لے کر گئے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ان کے 74 سالہ بزرگ گزشتہ ہفتے گھر میں ہی وفات پاگئے۔
محمد سعید نے بتایا کہ ان کے چچا کی طبیعت 6 اپریل کی رات خراب ہونا شروع ہوئی، ہم انہیں نارتھ ناظم آباد کے سب سے بڑے ہسپتال لے کر گئے لیکن انہوں (ہسپتال انتظامیہ) نے انہیں کار سے باہر تک نہیں آنے دیا اور کہا کہ انہیں پہلے کسی سرکاری ہسپتال لے جائیں جہاں ان کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ ہو پھر کسی ہسپتال منتقل کیا جائے۔
محمد سعید نے بتایا کہ ہم نے ان کی منتیں کی کم از کم ان کی نبض دیکھ لیں بلڈ پریشر اور ای سی جی ہی کرلیں لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں سنی اور ہم گھر آگئے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا کراچی میں پراسرار اموات کورونا وائرس کی وجہ سے ہورہی ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے باعث ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی تھیں جس کے بعد ہم مزید 2 ہسپتالوں میں لے کر گئے اور آخر کار خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے۔
محمد سعید نے بتایا کہ 2 روز بعد ان کے گھر والے ایک معالج قلب کا اپائنٹمنٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے کہا کہ مریض کو فوری طور پر عارضہ قلب کی سہولیات والے ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔
تاہم اہلِ خانہ اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے کہ انہیں کسی نجی یا سرکاری ہسپتال میں داخل کرواسکتے جنہیں علاج کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ انہیں داخل کرنے سے منع کردیا گیا اور کہا گیا کہ حالات معمول پر آنے کا انتظار کریں۔
محمد سعید کے مطابق گزشتہ ہفتے انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گئے، اہلخانہ صدمے میں ہیں اور علاج نہ کروانے کے سبب اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہیں لیکن یہ ان کی غلطی نہیں یہ نظام ہے جس نے ہم سب کو ناکام کردیا ہے۔
تمام تر توجہ کورونا پر ہونے کی وجہ سے نظام صحت محدود
جو کچھ محمد سعید کے اہلِ خانہ پر گزری وہ صوبائی نظامِ صحت کی عکاسی کرتی ہے جس کی صلاحیتوں میں کورونا وائرس کے باعث اضافہ ہونے کی توقع تھی لیکن اس کے بجائے وہ تیزی سے گر رہا ہے اور قابلِ علاج لاکھوں مریض کو علاج میسر نہیں۔
مزید پڑھیں: کیا پاکستان میں کورونا سے اموات فراہم کردہ اعدادوشمار سے زیادہ ہیں؟
چنانچہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران درجنوں شدید بیمار افراد درکار طبی مشورے اور سہولت نہ ملنے کے باعث انتقال کر گئے جس سے حکام اور طبی ماہرین بھی اتفاق کرتے ہیں۔
شہر میں کووِڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ایک اور بحران سر اٹھا رہا ہے اور کورونا کے سوا دیگر بیماریوں کے لاکھوں مریضوں کو علاج میسر نہیں کیوں کہ زیادہ تر سرکاری اور نجی ہسپتالوں نے اپنے دروازے ان کے لیے بند کردیے ہیں حتیٰ کہ انہیں شدید ضرورت میں داخل نہیں کیا جارہا اور سرجری کی اشد ضرورت ہونے کے باجود وہ معطل کردی گئیں ہیں۔
کراچی کے ہر علاقے میں نظام صحت تیزی سے سکڑ رہا ہے اور ہر ضلع میں موجود درجنوں ہسپتالوں میں لوگوں کا علاج کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔
کورنگی کی رہائشی شاہین عزیز کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی بیٹی خوش قسمت تھی جو 3 ہسپتالوں میں علاج اور داخل کیے جانے سے انکار کے باجود بچ گئی۔
اپنی 19 سالہ بیٹی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’اسے ایک ماہ سے کچھ مسائل تھے ڈاکٹر نے مارچ کے اوائل میں اینڈو اسکوپی کروانے کا کہنا تھا، جب ہم نے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق اس کے علاج کے انتظامات کرلیے تو کورونا کی صورتحال بگرنے لگی اور ہمیں اس کا علاج کروانے میں 3 ہفتے لگے جس کے باعث ہمیں شدید پریشانی اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم مرغوب حسین کی اہلیہ اتنی خوش نصیب نہ تھیں انہیں مارچ کے دوسرے ہفتے میں دل کی سرجری کا کہا گیا تھا لیکن انہیں سرجری کی تاریخ نہ مل سکی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا کے نئے کیسز سے متاثرین کی تعداد 9749، اموات 209 ہوگئیں
مرغوب حسین نے بتایا کہ ’جب ہمیں ہسپتال سے کال موصول نہ ہوئی تو میں نے ایک دوست کے توسط سے قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کے سینئر عہدیدار سے ملاقات کی، مجھے بتایا گیا کہ ہسپتال میں اس وقت کوئی سرجری نہیں کی جارہی، بعد ازاں 17 اپریل کو انہیں دل کا دورہ پڑا جس کے باعث وہ انتقال کر گئیں‘۔
علاوہ ازیں بہت سے نجی ہسپتالوں میں ڈائلیسسز کی سہولت بھی روک دی گئی ہے جس سے ہزاروں نازک حالت کے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں ہیں۔
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن صورتحال سے لاعلم
دوسری جانب سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن (ایس ایچ سی سی) مطمئن ہے اور اسے شہر بھر کے ہسپتالوں میں ’معاملات معمول کے مطابق‘ نظر آتے ہیں۔
ایس ایچ سی سی کے سربراہ ڈاکٹر منہاج اے قدوائی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے نجی ہسپتالوں کو او پی ڈیز بند کرنے کی تجویز دی ہے لیکن دیگر سہولیات معمول کے مطابق فراہم کی جارہی ہیں اور اس طرح کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ ہسپتال نے کسی مریض کا علاج یا داخل کرنے سے انکار کردیا ہو، اگر ایسا کسی ہسپتال نے کیا ہے تو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن ہم نے اس طرح کی کوئی چیز نہیں دیکھی اور اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو اسے چاہیے کہ ہم سے رجوع کرے اور ہم قواعد کے مطابق کام کریں گے۔
اس کے برعکس زمینی صورتحال بالکل مختلف ہے اور یہ صرف کووڈِ 19 کے سوا دیگر بیماریوں میں مبتلا مریض یا ان کے اہلِ خانہ نہیں بلکہ طبی ماہرین اور کارکنان بھی معاملے کی سنگینی کی گواہی دیتے ہیں۔
دوسری جانب جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ ’بدقسمتی سے لوگوں کو نجی ہسپتالوں میں دیکھا نہیں جارہا، ہمیں اس بات کا تجربہ ہوا کہ بہت سے ہسپتال مریضوں کو جناح ہسپتال بھجوا رہے ہیں اور چونکہ ہم سرکاری ہسپتال ہیں ہم انہیں انکار نہیں کرتے‘۔
مزید پڑھیں: انتظامی رکاوٹوں کے باعث زندگی بچانے والی ادویات کی کمی
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے یہ خدشہ ہے کہ اگر ہم بھی اپنے دروازے بند کردیں تو یہ سارے مریض کہاں جائیں گے، ہم نے وبا کے دوران بھی اپنی او پی ڈی جاری رکھی ہے‘۔
ایس ایچ سی سی اور صحت کے اہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے غفلت کے مظاہرے کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ ہنگامی صورتحال سے آگاہ نظر آئے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے میڈیا کارکنان کی جانب سے بتائے گئے خدشات پر اتفاق کیا کہ کووِڈ 19 سے منسلک وہم ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکرز کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے روک رہے ہیں۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو غیر معتدی بیماریوں کے باعث شدید بیمار یا بزرگ مریضوں کی اموات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
علاوہ ازیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر قیصر نے ڈاکٹروں کی ’منت‘ کی کہ کچھ حوصلہ دکھائیں اور گھروں سے نکل کر اپنے فرائض انجام دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سنا ہے کہ ہسپتالوں میں علاج سے انکار کیا جارہا ہے اور عوام سے کہا جارہا ہے کہ علاج یا داخل ہونے سے قبل کووِڈ 19 کا ٹیسٹ کروائیں، جو درست نہیں‘۔
یہ رپورٹ 22 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔