شعبہ توانائی سے متعلق رپورٹ منظرعام پر لانے کی منظوری
وفاقی کابینہ نے توانائی پیدا کرنے والے نجی اداروں (آئی پی پیز) سے متعلق رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی منظوری دیتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کابینہ میں جو فیصلے کیے گئے اس میں ایک فیصلہ اس رپورٹ سے متعلق تھا جس کمیٹی کی سربراہی محمد علی کرتے تھے۔
خیال رہے کہ سال 2019 میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین محمد علی کی سربراہی میں ایک 9 رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ وہ خصوصی طور پر انڈیپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مہنگی بجلی کے پیچھے کی وجوہات جان سکے۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات نے بتایا تھا کہ جس وقت محمد علی رپورٹ کی سفارشات کابینہ کے سامنے پیش کی گئیں، اس وقت کابینہ کے دو اراکین ندیم بابر اور عبدالرزاق داؤد وہ کابینہ سے اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے خود کو اس عمل سے الگ کردیا۔
مزید پڑھیں: ’حکومت نے آئی پی پیز کو 9 کھرب 56 ارب روپے اضافی ادا کیے‘
میڈیا سے گفتگو میں اسد عمر نے بتایا کہ یہ رپورٹ دفتر وزیراعظم سے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے چیئرمین کی حیثیت سے میرے پاس آئی تھی، جس کے بعد ہم نے اس پر کچھ سفارشات مرتب کی اور پھر آج انہیں کابینہ کے سامنے رکھا جس کی منظوری دے دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کا یہ اصول رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے اپنے حکومت کے دوران ہونے والے کام کی رپورٹس کو عوام کے سامنے رکھا ہے۔
اسد عمر کے مطابق بجلی کے منصوبوں سے متعلق اس رپورٹ میں کوئی بھی ایک منصوبے کا ٹھیکہ نہ تو تحریک انصاف کے دور میں ہوا اور نہ ہی یہ کام کیے گئے جس کے بارے میں یہ رپورٹ لکھی گئی ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تمام منصوبے اور چیزیں گزشتہ دور حکومت میں ہوتی رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ رپورٹ میڈیا پر لیک ہوچکی تھی لیکن آج کابینہ نے باضابطہ طور پر اسے پبلک کرنے کی منظوری دے دی۔
انہوں نےکہا کہ کابینہ نے دوسری جس چیز پر فیصلہ کیا وہ یہ کہ اس رپورٹ کے اندر بہت سی ایسی چیزوں کی نشاندہی کی گئی جہاں قانون کی خلاف ورزی اور بےضابطگیاں کی گئی ہیں، جس میں بہت سے سرکاری ادارے بھی ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی پی پیز نے غیر منصفانہ معاہدوں کے چارجز مسترد کردیے
انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ذہن میں ہوگا کہ کیا اس رپورٹ کے اوپر جو فیصلے اور نشاندہی ہونی ہے کہیں اس پر تو پردہ نہیں ڈال دیا جائے گا؟، لہٰذا قانون کے تحت ایک کمیشن آف انکوائری بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسد عمر کے مطابق اس کمیشن آف انکوائری کی ٹرم آف ریفرنس لکھی جارہی ہیں، کس کے پاس اس کی سربراہی ہوگی اس کا تعین وزیراعظم کریں گے تاہم یہ کوئی حکومتی شخص نہیں ہوگا بلکہ ایک آزاد اور ساکھ رکھنے والا شخص اس کمیشن آف انکوائری کی سربراہی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمیشن آف انکوائری فرانزک آڈٹ کروائے گی اور اس کے علاوہ وہ جو بھی تحقیقات کروانا چاہتی ہیں اس کا اختیار ہوگا جبکہ اس سلسلے میں انہیں بجٹ بھی فراہم کیے جائیں گے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیشن آف انکوائری کو 90 دن کے اندر اس کام کو مکمل کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔
وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ تیسری چیز جس پر کابینہ میں فیصلہ کیا گیا وہ یہ کہ رپورٹ میں کچھ سفارشات اس حوالے سے ہیں کہ پالیسی کونسی اچھی تھی اور کونسی نہیں تھی، ان میں کیا ترامیم آنی چاہئیں، یہ کام پہلے سے چل رہا تھا اور ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے معدنیات شہزاد قاسم کررہے ہیں اور ان کی زندگی اسی پاور سیکٹر میں گزری ہے اور پالیسی سے متعلق سفارشات بھی انہیں کے سامنے رکھ دی جائیں گی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 2 چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اگر کسی نے بھی قانون کی خلاف ورزی یا بے ضابطگیاں کیں اور پاکستان کے عوام کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔
ساتھ ہی انہوں نےکہا کمیشن آف انکوائری جو بھی سفارشات مرتب کرے گی حکومت اس پر مکمل عمل درآمد کرے گی۔
مزید پڑھیں: حکومت نے آئی پی پیز کو اہم بات چیت کیلئے طلب کرلیا
تاہم انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کے ساتھ ساتھ یہ نہیں کرنا کہ جن کاروباری لوگوں نے سرمایہ کاری کی اور اس سے بجلی کے نظام کو بڑھانے میں مدد ملی اور انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو انہیں ملزم کے کٹہرے میں لاکر کھڑا نہیں کرنا۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک شفاف طریقے سے قانون کے لوازمات پورے کرتے ہوئے رپورٹ مرتب کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا جو قوم سے وعدہ تھا اس کی تکمیل آج پھر ہورہی ہے، حکومت اور اس کا نظام چلنا قوم کی امانت ہے، اگر اس نظام میں کوئی اخراجات آتے تو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے آتے اور یہ اختیار عوام کی امانت ہے۔