عید کے بعد تعمیراتی شعبے کی 'بحالی' متوقع
کراچی: پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں جمعے کے روز سے نجی شعبے کے بڑے منصوبوں اور عوامی ترقیاتی کاموں پر تعمیراتی کام کا جزوی طور پر دوبارہ آغاز ہوگیا جو کورونا وائرس کے باعث کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک ماہ سے زائد عرصے تک معطل رہا تھا۔
دریں اثنا بلڈرز نے ہفتے کے روز دعویٰ کیا کہ سندھ میں خاص طور پر کراچی میں تعمیراتی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہونی ابھی باقی ہیں کیونکہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔
گزشتہ ماہ جب وبائی مرض نے پاکستان کا رخ کیا تو ملک بھر میں 500 سے زائد بڑے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں پر سرگرمیاں رک گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: کراچی: مزدوروں کی اجرت، بقایا جات کی ادائیگی کے لیے احتجاج
جمعے کے روز حکومت نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نافذ کی جس سے دولت مند افراد اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو تعمیرات اور ترقیاتی شعبوں میں غیر اعلانیہ سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تاکہ کورونا وائرس سے ملک کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جاسکے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں پیش کی گئی دوسری ایمنسٹی اسکیم سے ہاؤسنگ سوسائٹیز اور منصوبوں کے بلڈرز اور ڈویلپرز کو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس کی معاشی مراعات حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے، مراعات حاصل کرنے کے لیے منصوبوں کی تکمیل کا دورانیہ ڈھائی سال ہے۔
آرڈیننس کے اجرا سے قبل اس اسکیم کو وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے منظور کیا۔
اس آرڈیننس کا نام ٹیکس قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2020 ہے۔
حکومت نے ابھی آرڈیننس جاری نہیں کیا ہے اور صرف اس آرڈیننس کی تفصیلات جاری کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گوادر میں تعمیرات پر 4 سال سے عائد پابندی ختم
اس پیکج سے مستفید ہونے والوں میں سیمنٹ، آئرن اور اسٹیل، لکڑی کے سامان، سامان کی نقل و حمل سے متعلق دیگر صنعتیں بھی شامل ہیں۔
فلیٹ کی صورت میں زیادہ سے زیادہ 500 مربع گز رقبہ اور 4،000 مربع فٹ رقبے پر مشتمل رہائشی جائیداد کی فروخت پر کیپیٹل فوائد ٹیکس مستثنیٰ ہیں۔
کسی ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والے انفرادی بلڈر یا ڈویلپر کے آمدنی کے ذرائع کی انکوائری کی ضروری نہیں ہوگی۔
آرڈیننس کی منظوری کے بعد، بلڈرز اور ڈویلپرز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم وہ عید الفطر کے بعد تعمیراتی سرگرمیوں میں بھرپور تیزی کی توقع کرتے ہیں۔
شعبے کے نمائندوں کو اُمید ہے کہ اُس وقت تک کورونا وائرس کے اثرات بھی کم ہوجائیں گے۔