• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

فروری سے اب تک 7 ہزار پاکستانی ایران سے واپس آچکے ہیں، دفتر خارجہ

شائع April 19, 2020
200 پاکستانی طلبہ بھی ایرانی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
200 پاکستانی طلبہ بھی ایرانی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

اسلام آباد: فروری میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے سے لے کر اب تک تقریباً 7 ہزار پاکستانی ایران سے وطن واپس آچکے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 28 فروری سے 15 اپریل تک تفتان بارڈر کے ذریعے 6 ہزار 800 پاکستانی واپس آئے جن میں سے زیادہ تر کو ایران میں موجود پاکستانی سفارتخانے اور مشہد اور زاہدان کے قونصل خانوں سے سہولت دی گئی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ ’ایرانی حکومت نے ہماری حکومت کی کوششوں کو سراہا بلکل اسی طرح جس طرح ہم نے اپنے شہریوں کی تفتان سے وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ان کے تعاون کو سراہا‘۔

یہ بھی پڑھیں: بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کیلئے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن جزوی بحال

خیال رہے کہ پاکستان میں پہلا کورونا کیس ایران کی زیارت سے واپس آنے والے زائرین میں سامنے آیا تھا اور مارچ کے پہلے ہفتے میں وطن واپس آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے حکومت کے وسائل پر خاصہ دباؤ پڑا اور وہ یہ دباؤ برداشت نہ کرسکا۔

جس کے نتیجے میں تفتان بارڈر پر بدانتظامی کی رپورٹ سامنے آئیں جہاں زائرین کو خاصی ابتر صورتحال میں قرنطینہ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ایران میں وبا کے پھیلاؤ کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی وطن واپسی کے حوالے سے بھی ابہام پائے جارہے تھے۔

سوالات اٹھ رہے تھے کہ جب چین میں جنوری میں وبا پھیلی تو حکومت نے ووہان سے طلبہ کو واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تو ایران سے لوگوں کو کیوں واپس آنے دیا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت سے وطن واپس آنے والی 2 خواتین میں کورونا وائرس کی تشخیص

ترجمان دفتر خارجہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے ہوا کہ ’تمام ممالک غیر معمولی صورتحال کا سامنا کررہے تھے اور کوئی بھی اس شدت کے لیے تیار نہیں تھا اور ہمارے شہریوں کی بڑی خواہش وطن واپس آنا تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں حکومت پاکستان کی ترجیح ایرانی حکام کے ساتھ تعاون کر کے زائرین کی وطن واپسی تھی اور اب بھی تعاون جاری ہے۔

عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ ’ایک برادر اور پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان اور ایران کے لیے ایسے نظریات اور طریقہ کار کا تبادلہ کرنا فطری امر تھا جو عالمی وبا سے پیدا ہونے والی چیلنج کو روک سکیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ایران میں اب بھی 3 سو زائرین موجود ہیں اور واپسی کی پروازوں کے منتظر ہیں کیوں کہ وہ سڑک کے ذریعے سفر نہیں کرسکتے اور انہیں سفارتخانے کی جانب سے ہوٹلز مہیا کیے گئے ہیں۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 پاکستانی طلبہ جو ایرانی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں وہ بھی سالانہ چھٹیوں کی وجہ سے وطن واپسی کے منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں سازشی لوگ تبلیغی جماعت یا زائرین کو نشانہ بنارہے ہیں، شیخ رشید

ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ اٹھایا تا کہ وہ اپنے وسائل سے اہم ضروریات پوری کرسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دو طرفہ پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کو جس چیلنج کا سامنا ہے اس نے کورونا وائرس سے جنگ کی صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا اس لیے وزیراعظم عمران خان نے ایران پر عائد دو طرفہ پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا، نتیجتاً امریکی کانگریس اس پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔


یہ خبر 19 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024