چین کی معیشت کو دہائیوں بعد کورونا سے نقصان
چین کی معیشت کو دہائیوں بعد کورونا وائرس کے باعث پہلی سہ ماہی میں نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت 6 اعشاریہ 8 فیصد تک سمٹ گئی ہے۔
چین دنیا کی معیشت کا بڑا کھلاڑی ہے جو اشیا کی پیدوار، برآمدات اور درآمدات میں دنیا کا بڑا حصہ دار ہے تاہم چینی معیشت کو دیکھتے ہوئے کورونا وائرس کے باعث دیگر معیشتوں کے لیے بھی تشویش کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین کی معیشت میں سال کے پہلے تین ماہ میں 1992 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب نقصان کے باعث سمٹ گئی ہو۔
مزید پڑھیں:چین میں 'کورونا کے مرکز' ووہان سے لاک ڈاؤن ختم، دنیا کے کئی ممالک میں شروع
اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے رکن یوئی سو کا کہنا تھا کہ 'جنوری سے مارچ کے دوران جی ڈی پی کے محدود ہونے سے مستقل سرمایے پر اثر پڑے گا جس کے اثرات چھوٹی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے اور بے روزگاری کی صورت میں ہوں گے'۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس پہلی سہ ماہی میں چین کا معاشی نمو مضبوط 6 اعشاریہ 4 فیصد تھا اور اس دوران امریکا سے معاشی جنگ چل رہی تھی اور اس کے اثرات پڑ رہے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے چین کی معاشی ترقی کی سالانہ شرح 9 فیصد کے لگ بھگ رہی ہے تاہم ماہرین ان اعداد وشمار کے مصدقہ ہونے پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔
کورونا وائرس سامنے آنے کے بعد چین نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات متعارف کرواتے ہوئے طویل لاک ڈاؤن اور قرنطینہ مراکز قائم کردیے تھے۔
ماہرین معاشیات کا خیال تھا کہ چین کے حالات کے باعث معیشت کے سکڑنے کے خدشات ہیں تاہم جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ خدشات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
چین کی جانب سے جاری کی گئی تازہ رپورٹ کے مطابق فیکٹری کی پیداوار مارچ میں ایک اعشاریہ ایک فیصد تھی جب چین میں بتدریج معمولات زندگی بحال ہورہی تھی۔
ریٹیلرز کی آمدنی میں گزشتہ ماہ 15 اعشاریہ 8 فیصد تنزلی ہوئی جس کی بڑی وجہ دکان داروں کا گھروں میں محصور ہونا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:دنیا میں وائرس سے تقریباً 22 لاکھ افراد متاثر، لاک ڈاؤن میں نرمی پر خدشات
سرکاری رپورٹ کے مطابق چین میں بے روزگاری کی شرح مارچ میں 5 اعشاریہ 9 فیصد تھی تاہم فروری کے مقابلے میں یہ قدرے بہتر تھی کیونکہ فروری میں بے روزگاری کی شرح بلند تریں 6 اعشاریہ 2 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
شنگھائی میں موجود بی بی سی کے تجزیہ کار روبن برانٹ کا کہنا تھا کہ بدترین تنزلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کے اثرات پڑے ہیں۔
یاد رہے کہ کورونا وائرس پہلی مرتبہ دسمبر 2019 میں چین کے صوبے ہوبے میں سامنے آیا تھا اور اس کے مرکزی شہر ووہان کو بدترین نشانہ بنایا تھا جہاں 11 ہفتوں تک طویل لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔
چینی ماہرین نے ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ کورونا کے مریض نومبر 2019 میں ہی سامنے آئے تھے مگر ان کے مرض کی تشخیص نہیں ہو پائی تھی اور مرض کو پہچاننے میں ماہرین کو کچھ وقت لگا۔
کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے چینی حکام نے ابتدائی طور پر جنوری 2020 کے آغاز میں ہی ووہان کو جزوری طور پر بند کرتے ہوئے شہریوں کو گھروں تک محدود کردیا تھا، تاہم بعد ازاں شہر میں مکمل لاک ڈاؤن کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:دنیا کیلئے اُمید کی کرن، ووہان میں آج کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہی چینی حکام کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے اور پہلی بار 19 مارچ 2020 کو ووہان کے شہر سے کوئی بھی کورونا کا نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا۔
چینی حکام نے ووہان سے لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا آغاز کرتے ہوئے 22 مارچ کو ہی شہریوں کو جزوی طور پر باہر نکلنے کی اجازت دی تھی۔
حکام کی جانب سے لاک ڈاؤن کو ختم کیے جانے کے آغاز میں ہی 22 مارچ کو ووہان میں پہلی ٹرین کے ذریعے دوسرے شہروں سے ایک ہزار افراد آئے اور وہ 2 ماہ بعد اپنی ملازمت پر پہنچے تھے۔
چین میں اب تک کورونا وائرس کے کیسز کی مجموعی تعداد 82 ہزار 692 ہے جبکہ 4 ہزار 632 افراد ہلاک ہوئے اسی طرح 77 ہزار 944 افراد صحت یاب ہوئے۔
چین میں اس وقت زیر علاج متاثرین کی تعداد سکڑ کر 116 ہوگئی ہے۔