قرنطینہ کہانی: تفتان سے گھر تک کا سفر (تیسرا اور آخری حصہ)
اس سیریز کا پہلا اور دوسرا حصہ یہاں پڑھیے
15مارچ
15 مارچ کی صبح ناشتے کے فوری بعد طے شدہ پروگرام کے تحت فاروق، مصطفی، فرمان اور نعمان کمرے کی صفائی میں لگ گئے۔ گزشتہ رات چھت سے گرنے والے خشک چونے کی تیز بُو نے سونے نہیں دیا تھا۔
سردی، ہلکی بارش اور تیز ہوا کے سبب کھڑکی کھولنا ممکن نہیں تھا۔ دیکھا دیکھی اڑوس پڑوس نے بھی صفائی ستھرائی کا عمل شروع کردیا۔ لگے ہاتھوں کچھ مسافروں نے کمروں سے چارپائیاں نکال کر گدے فرش پر بچھا لیے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کمزور گدے اور لوہے کی چارپائیاں مسافروں کے بوجھ کی وجہ سے چند راتوں میں ہی دب کر جھولے کی شکل اختیار کرچکی تھیں۔ اس وجہ سے نیند تو خراب ہوتی ہی تھی مگر ساتھ میں کمر کا درد بھی شروع ہوجاتا تھا۔ ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ تمام گدے نکال کر چادریں چارپائیوں پر بچھا لی، یوں چارپائیوں کا نکلا ہوا پیٹ کسی حد تک کم ہوگیا۔
12 بجے سے پہلے کمرہ دوبارہ لش پش ہوچکا تھا۔ دھوپ نکلی تو کھڑی کو کھول دیا گیا تاکہ کمرے سے بُو بھی نکل جائے اور تازہ ہوا بھی اندر آسکے۔ پھر طے پایا کہ دوپہر کا کھانا باہر دھوپ میں بیٹھ کر کھایا جائے۔
گھر والے سوال کرتے تھے کہ واپسی کب ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ ہر شخص آئندہ کے بارے میں اپنی الگ رائے رکھتا تھا۔ سب اپنی اپنی شنید و قیاس سے ایک دوسرے کو حسبِ توفیق حوصلہ دیتے یا پریشان کرتے رہتے تھے۔
اطلاع ملی کہ مسافروں کا ایک نیا قافلہ ایک آدھ دن میں پہنچنے والا ہے۔ جس کی تیاری ہوتی نظر آرہی تھی۔ ہمارے کیمپ کے سامنے قائم کی گئی خیمہ بستی کی پچھلی جانب خاردار تار بچھانے کا کام جاری تھا۔ ایف سی کے جوان ہمارے کیمپ کی عمارت کے چاروں کونوں پر کھڑے حفاظت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
ہمیں خبردار کیا گیا کہ آنے والے قافلے کے تمام مسافر زائرین ہیں اور یہ تمام افراد تفتان بارڈر پر قائم کیے گئے کیمپ میں چند روز گزارنے کے بعد یہاں منتقل کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں ہدایات دی گئیں کہ کوئی مسافر سامنے والے کیمپ میں نہ جائے اور نہ اس کیمپ سے کوئی اس طرف آئے۔
میں تفتان بارڈر سے گزرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر قائم کیے گئے کیمپ دیکھ چکا تھا۔ مجھے اس بات کا شدید احساس تھا کہ آنے والے مسافر انتہائی مشکل اور صبر آزما ایام گزار کر یہاں پہنچیں گے۔
ڈاکٹرز کی ایک ٹیم دوپہر کے کھانے کے بعد آئی اور ہر مسافر کا ٹیمپریچر لے کر واپس روانہ ہوگئی۔ جاتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنا گئی کہ ابھی تک کیمپ کے سارے مسافر صحت مند ہیں اور کسی میں کوئی قابلِ تشویش علامت نہیں پائی گئی۔
رات کا کھانا ایف سی کی طرف سے تھا اور یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ جب بہت حساب کتاب اور منظم طریقے سے کھانا کمروں میں آکر دیا گیا۔ ایف سی کا جوان دروازہ کھٹکھٹاتا مسافروں کی تعداد پوچھتا اور کھانے کے پیکٹ گن کر حوالے کرتا جاتا۔ نہ شور شرابا ہوا نہ لڑائی۔ سب سے اچھی بات یہ رہی کہ کھانا بالکل بھی ضائع نہ ہوا۔
ناجانے کیا وجہ تھی کی اس رات میں 9 بجے سے پہلے سو چکا تھا۔
16 مارچ
رات کے کسی پہر اعجاز اور نعمان کے درمیان ہونے والی گفتگو سے آنکھ کھل گئی۔ نعمان سینے میں درد کی شکایت کر رہا تھا۔ پوچھنے پر نعمان نے بتایا کہ اسے سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔ کمرے میں موجود ہر شخص شدید پریشان تھا کہ کیا کیا جائے سوائے اقبال صاحب کے جو بدستور گہری نیند میں تھے۔ میں نے ماسک پہنا اور نعمان کو اپنے ساتھ آنے کا کہا۔
صبح 6 سے کچھ پہلے کا وقت تھا اور کیمپ کے تمام مسافر ابھی اپنے اپنے کمروں میں ہی تھے۔ ڈاکٹرز کے کیبن کے سامنے ایک جوان نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ابھی سو رہے ہیں۔ تھوڑی سی منت کے بعد سیکیورٹی گارڈ نے انتہائی مہربانی کرتے ہوئے کیبن کا دروازہ بجا کر ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دی کہ ایک مریض باہر آپ کا انتظار کر رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو تیار ہوکر باہر آنے میں 15 منٹ سے زیادہ نہیں لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے نعمان کا بلڈ پریشر چیک کرنے کے بعد بتایا کہ سب کچھ نارمل ہے۔ فوری واک کا مشورہ دینے کے ساتھ ہدایت کی کہ اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو وہ دوبارہ اطلاع کرے۔ وقتی اطمینان کے ساتھ ہم نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔
میں نے وہیں سے نعمان کو واک پر جانے کا کہا اور خود کمرے میں واپس آگیا۔ سب انتہائی پریشانی کی حالت میں ایک دوسرے کو یقین دلا رہے تھے کہ نعمان کو کچھ نہیں ہے۔ 15، 20 منٹ کے بعد واک سے واپس آنے والا نعمان، اعجاز کے برابر والی چارپائی پر لیٹا ہمیں یہ بتا رہا تھا اب اس کی حالت بہتر ہے اور یقین جانیے کہ دونوں چارپائیوں کا درمیانی فاصلہ صفر انچ تھا۔
اب جب صبح اٹھے تو سیکیورٹی کے انتظامات معمول سے ہٹ کر اور زیادہ نظر آرہے تھے۔ ہمارے کیمپ پر سیکیورٹی نہ ہونے کے برابر تھی جو یہ ثابت کررہی تھی کہ انتظامیہ کو اس جانب سے کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں ہے لیکن ایف سی کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے سامنے والے کیمپ کے اردگرد تعینات تھی۔
ہمارے کیمپ سے مین گیٹ کی طرف جانے والا راستہ بلاک کردیا گیا تھا۔ چند مسافروں نے مین گیٹ کی طرف جانے کی کوشش کی تو سیکیورٹی کی طرف سے سخت رویہ اپنایا گیا۔ یہ عمل چند کاروباری حضرات کو اپنی تذلیل محسوس ہوا تو انہوں اپنے اختیارات، ملازموں کی تعداد، اثر و رسوخ کے بارے میں سیکیورٹی اہلکاروں کو مطلع کیا لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
ہمیشہ سے ناراض چند مسافروں کے پاس اب بھی ضروریات اور شکایات کی ایک لمبی فہرست تھی جن کو پورا کرنا انتظامیہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ کسی کو سگریٹ چاہیے تھی تو کسی کو نسوار۔ کسی کو شکایت تھی کہ فلاں کمپنی کے بجائے ہمیں دوسری کمپنی کا پانی کیوں دیا جارہا ہے؟ کوئی ایکسپائر صابن کی ٹکیا اٹھائے انتظامیہ کی اہلیت پر سوال اٹھا رہا ہے۔ دوسری طرف ڈنگ ٹپاؤ اور خوش رہو کی پالیسی پر عمل پیرا مسافروں کی اچھی خاصی تعداد اپنے حال میں مست دن پورے ہونے کے انتظار میں تھی۔
کچھ خانہ بدوش مفکروں کا خیال تھا کہ یہ سب پیسے کا کھیل ہے۔ حکومت کیمپ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قید کرکے اضافی فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے دنیا جہاں کی دلیلیں دی جا رہی تھیں جن کو ماننے کے لیے مست حالوں کی ایک بڑی تعداد راضی نہیں تھی۔
دوپہر کے کھانے کے کچھ دیر بعد زائرین کے قافلے کی آمد کی اطلاع ملی۔ قافلے میں زیادہ تعداد ہزارہ کے لوگوں کی تھی۔ خواتین اور بچوں کی اچھی خاصی تعداد بھی قافلے کا حصہ تھی۔ قافلے کی تعداد کا ٹھیک اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن ہمارے کیمپ کے دائیں جانب پارک کی گئی 4 بسوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ زائرین کی تعداد ڈیڑھ سو سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ چونکہ ان میں زیادہ تر پورے پورے خاندان تھے اس لیے محدود کمروں میں اس قافلے کو ٹھہرانا یقینی طور پر ایک چیلنج رہا ہوگا۔
زائرین کی ایک بڑی تعداد ناراض معلوم ہورہی تھی اور یہ محسوس ہورہا تھا کہ زائرین کو میاں غنڈی میں دوبارہ قیام کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ یہ قافلہ جو شاید اس امید پر تفتان سے نکلا تھا کہ کوئٹہ پہنچ کر سب اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے، مگر ایک بار پھر قرنطینہ کرنے سے متعلق احکامات ملنے پر یہ قافلہ ذہنی طور پر پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ ایسی صورت میں انتظامیہ کی طرف سے کوئی بھی سخت اقدام حالات کو مزید بگاڑ سکتے تھے۔
ہمارے کیمپ کے کچھ حساس طبیعت مسافروں نے زائرین کی آمد پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ زائرین کو ادھر لاکر انتظامیہ نے ایک صحت مند کیمپ کے باسیوں کی زندگی کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ ان مسافروں میں سے چند لوگ ایسے بھی تھے جو ایک ہفتے پہلے تک کیمپ میں ایک پل بھی گزارنے پر راضی نہیں تھے۔
عشا کے بعد نئے قافلے کی عمارت سے شور کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ دُور سے مسئلے کی نوعیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن رات کو سیکیورٹی پر معمور ایک جوان سے پتہ لگا کہ قافلے نے رات کا کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مزید کسی تاخیر گھروں کو جانے دیا جائے۔ زائرین اور سیکیورٹی کے جوانوں کے درمیان ہاتھا پائی کی اطلاعات بھی تھیں۔ ناقابلِ بیان نعروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ بھوکے تماش بین ہمارے کیمپ کی عمارت کے تھڑے پر کھڑے قیاس آرایوں میں مصروف تھے جنہیں دراصل کھانا لانے والی گاڑی کا انتظار تھا جو مین گیٹ پر روک لی گئی تھی۔
ہم اپنے کمرے میں ہنوز نعمان کی صحت کے بارے میں فکر مند تھے اور اسے بار بار کم کھانے اور ورزش کا مشورہ دے رہے تھے۔ دوسری طرف نعمان ہمیں یقین دلا رہا تھا کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔ ایک کمرے میں 7 افراد کتنی احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے تھے؟ لہٰذا رات کے کھانے کی بعد تاش کی محفل ایک بار پھر جم گئی۔
17 مارچ
17 مارچ کی صبح باس نے ایک بار پھر کال کی اور خیریت دریافت کی۔ میری ایک ماہ کی چھٹی 15 مارچ کو ختم ہوچکی تھی اور لگتا ایسا تھا کہ شاید ایک دو ماہ مزید ریاض پہنچنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔
سعودی عرب میں موجود میرے ہم کار بھی گھر پر رہ کر دفتری امور انجام دے رہے تھے۔ باس کو فکر لاحق تھی کہ اگر ریاض میں کرفیو کا دورانیہ بڑھا دیا گیا تو آپریشن متاثر ہوگا لہٰذا طے یہ پایا کہ آپریشنل ٹیم کو جلد از جلد پلانٹ میں شفٹ کیا جائے لیکن اس سے پہلے رہن سہن کا مکمل انتظام کیا جانا لازمی تھا۔ باس سے خدا حافظ کرنے کے بعد اپنی ٹیم کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل زیرِ بحث رہا۔
اچانک فاروق نے آکر اطلاع دی کہ سامنے کیمپ میں نئے آنے والے ناراض مسافروں نے آگ لگا دی ہے۔ ہم سب پریشانی کی حالت میں باہر دوڑے۔ عمارت سے دھواں اٹھ رہا تھا لیکن اتنی دُور سے اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ آگ عمارت کے اندر لگائی گئی ہے یا باہر۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ گزشتہ رات ان مسافروں نے کھانا کھایا تھا یا نہیں۔
پھر بعد میں معلوم ہوا کہ زائرین نے میڈیکل ٹیسٹ کروانے سے بھی انکار کردیا ہے۔ انتظامیہ اپنی پوری کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ مسافروں کو جلد از جلد چیک اپ اور ٹیسٹ پر آمادہ کیا جائے۔ مزے کی بات یہ کہ جو مسافر آمادہ تھے انہیں بھی ناراض گروہ روکے ہوئے تھا۔
انتظامیہ کا کہنا تھا کہ زائرین میں سے کچھ بیمار ہیں جن کا فوری ٹیسٹ ہونا لازمی ہے۔ کچھ مسافر عمارت کی چھت پر چڑھ کر نعرے بازی میں مصروف تھے جنہیں بڑی کوششوں سے زبردستی اتارا گیا جس کے بعد کچھ سپاہی مستقل طور پر عمارت کی چھت پر موجود رہے۔
جب انتظامیہ نئے مسافروں کو کسی بھی طور پر چیک اپ پر آمادہ نہیں کرسکی تو ڈاکٹرز کی ٹیم ہمارے کیمپ میں آئی اور کمرہ نمبر کے حساب سے ہمیں ٹیسٹ کے لیے تیار رہنے کا کہا۔
سامنے والی عمارت کے پہلو میں 3 ٹیمیں علیحدہ علیحدہ ڈاکٹر کی سربراہی میں ٹیسٹ کرنے کے لیے تیار تھیں۔ ہمارا نمبر خوش قسمتی سے جلد آگیا لہٰذا ہم ساتوں ساتھی دوپہر کے کھانے سے پہلے ٹیسٹ کروانے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں لوٹ آئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ٹیسٹ کا نتیجہ آنے میں 3 سے 4 دن لگ جائیں گے۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹرز انتہائی احتیاط کی تاکید کے ساتھ ساتھ کمروں سے کم سے کم نکلنے کی تلقین کر رہے تھے۔
18 مارچ
اگلے دن یعنی 18 مارچ کو انتظامیہ نے کسی نہ کسی طرح زائرین کو ابتدائی چیک اپ پر آمادہ کرلیا۔ چیک اپ کے بعد پتہ چلا کہ چند زائرین شدید بخار میں مبتلا ہیں جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
ہمارے کیمپ کے مسافروں کے لیے یہ وارننگ تھی۔ ہمیں یہ خبر ایک ڈاکٹر نے بطور خاص آکر سنائی تاکہ ہم احتیاط کو سنجیدہ لیں۔ اس خبر کا اثر یہ ہوا کہ بیشتر مسافروں نے احتیاط شروع کردی۔ اس احتیاط کو دیکھنے کے بعد یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ انسان جب تک اپنی آنکھوں یا کانوں سے ہوتا دیکھ یا سن نہ لے اثر نہیں لیتا۔
اب ہم کمرے کے تمام ساتھی اس فکر میں تھے اور مسلسل دعا کررہے تھے کہ خدا کرے نعمان کا ٹیسٹ ٹھیک آئے۔ پچھلے 8 دن ساتھ گزارنے کے بعد ہمارے درمیان اچھی خاصی دوستی ہوچکی تھی۔ ہم کسی حد تک ایک دوسرے کی سابقہ زندگیوں کے بارے بھی جان چکے تھے۔ نعمان روزگار کے سلسلے میں کافی عرصے سے گھر سے نکلا ہوا تھا جس کے والدین اس کی واپسی کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔
کچھ مسافروں کا اندازہ تھا کہ ٹیسٹ کا نتیجہ آنے کے بعد تندرست مسافروں کو جانے دیا جائے گا۔ انتظامیہ اور میڈیکل اسٹاف کی جانب سے بھی کچھ ایسا ہی ڈھکا چھپا تاثر دیا جا رہا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ اگر تمام کیمپ کے رزلٹ منفی بھی آئیں تب بھی ہمیں یہاں 14 دن پورے کرنے ہوں گے۔ میرے کچھ دوست بھی میری اس رائے سے متفق تھے لیکن ایک عجیب و غریب گمان تھا کہ انتظامیہ کبھی نہیں چاہے گی کہ ہمیں جلد بھیج کر اضافی مراعات سے ہاتھ دھو لیے جائیں۔
جو لوگ مسافروں سے بذریعہ موبائل فون رابطے میں تھے وہ انہیں عجیب و غریب اور غیر تصدیق شدہ خبریں پہنچا رہے تھے۔ اعجاز کو ایک دوست نے خبر دی کہ اس کا ایک اور دوست تفتان سے سیدھا گھر پہنچ چکا ہے۔ اعجاز اس خبر کے بعد کافی پریشان ہوا اور اس کا کہنا تھا کہ یہ کیا انصاف ہوا کہ کچھ یہاں مفت کی قید کاٹیں اور کچھ دے دلا کر گھر پہنچ جائیں۔
19 مارچ
19 مارچ کی صبح سے زائرین والے کیمپ کے سامنے بہت سی ایمبولینسیں آکر کھڑی ہوگئیں۔ خبر یہ تھی کہ گزشتہ روز کیے گئے میڈیکل چیک اپ اور ٹیسٹ کا نتیجہ آچکا ہے اور یہ کہ کافی تعداد میں مسافر وائرس زدہ ہوچکے ہیں۔
مسئلہ پھر وہی تھا کہ کیمپ کے وہ لوگ متاثرہ مریضوں کو ہسپتال بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔ انتظامیہ نے ہزار مرتبہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ متاثرہ مریض تمام مسافروں کو بیمار کرسکتے ہیں لیکن دوسری جانب سے کسی تعاون کی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ انتظامیہ کی جانب سے جب لگاتار کوشش ہوتی رہی اور سلسلہ اگلے 3 گھنٹے تک جوں کا توں رہا تو پھر اعلیٰ حکام نے مداخلت کی اور سخت رویہ اپنانے کا اعلان کردیا، جس کے بعد صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی اور پھر مریضوں کو ہسپتال روانہ شروع کیا گیا۔
مریضوں کی تعداد کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ مختلف لوگ مختلف تعداد بتا رہے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد 25 سے 30 ہوسکتی ہے۔ لیکن ایک بڑی پریشانی یہ تھی کہ ان لوگوں نے مزید کتنے لوگوں کو متاثر کیا ہوگا؟ اگر یہی تعداد ایک دو روز مزید دوسرے مسافروں میں موجود رہتی تو آئندہ نتائج کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ یاد رہے کہ یہ مسافر 16 مارچ کو کیمپ میں آئے تھے اور ایک روز کے وقفے سے کیے جانے والے ٹیسٹ کے نتائج کے حساب سے تقریباً 20 فیصد مسافر مریض تھے جو ٹیسٹ کے بعد بھی ایک رات دوسرے مسافروں کے ساتھ گزار چکے تھے۔
دوسری حقیقت جو زیادہ خطرناک تھی وہ یہ کہ ان 20 فیصد مسافروں میں سے کچھ تفتان سے وائرس کو ساتھ لے کر چلے تھے۔
میرے کیمپ کے لوگ بھی شدت سے اپنی رپورٹس کے منتظر تھے لیکن انتظامیہ نے بتایا کہ ابھی موصول نہیں ہوئیں۔ یہاں یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ زائرین کی ٹیسٹ رپورٹ اگلے دن مل گئیں تو ہماری کیوں نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ نتائج کے لیے کچھ ہنگامی انتظامات کیے گئے ہوں۔ اگر ایسا تھا تو یہ کوشش قابلِ تحسین ہے۔
کام کاج زیادہ نہ ہو تو نیند بہت آتی ہے لہٰذا میں بھی ان دنوں سالوں کی قضا نیند پوری کررہا تھا۔ اس دن بھی میں سویا ہوا تھا جب اعجاز نے مجھے انتہائی پریشانی کی حالت میں جگا کر بتایا کہ ہمارے کیمپ کے لوگ ایک بار پھر لشکر کی شکل میں انتظامیہ کے پاس جا رہے ہیں۔ ایک پَل کے لیے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور ماسک کے بغیر ہی باہر کی طرف دوڑ پڑا۔ عمارت کے سامنے واقع تھڑے سے اتر کر مین گیٹ کی طرف جاتے راستے پر آیا تو دیکھا مشتعل مسافر خاردار تاروں کے پاس پہنچ چکے ہیں۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کیمپ کی بائیں جانب کی دیوار کو توڑ کر ایک عارضی دروازہ لگا دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ڈاکٹرز ، سرکاری عملہ کیمپ کی حدود سے باہر شفٹ ہوگیا تھا۔ ہمارے کیمپ اور زائرین کے کیمپ کو خاردار تاروں سے جدا کردیا گیا تھا۔ یہ سارے انتظامات زائرین کی آمد سے پہلے کیے گئے تھے۔
اب صورتحال یہ تھی کہ زائرین اپنے کیمپ سے نکل کر خاردار تاروں کے پاس کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ ہمارے کیمپ کے کچھ لوگ زائرین سے دعا سلام بھی کر رہے تھے۔
ایک سرکردہ مسافر سے مسئلہ دریافت کیا تو پتہ چلا کہ باہر رکھی پانی کی ٹینکیوں میں چھپکلیاں اور کیڑے مکوڑے پائے گئے ہیں۔ جس کی فوٹو بھی دکھائی گئی۔ ایک لمحے کے لیے میں بھی پریشان ہوا۔ معاملہ گرم ہوا تو ہمیشہ سے ناراض چند مسافروں کو اپنے پرانے مطالبات ایک بار پھر یاد آگئے۔ کچھ کا کہنا تھا ہمیں جانے کی اجازت کب دی جائے گی۔ کسی کو لگتا تھا انتظامیہ رات گئے کچھ مسافروں کو جانے دے رہی ہے لیکن ثبوت کسی کے پاس نہیں تھا۔
میں نے بڑی مشکل سے مجمعے کو اس بات پر راضی کیا کہ مجھے انتظامیہ سے بات کرنے کی اجازت دیں۔ اللہ بھلا کرے سب کا کہ میری گزارش مان لی گئی۔ میں نے مسافروں سے کہا کہ ہم انتظامیہ سے صرف 3 سوال پوچھیں گے۔
- پہلا یہ کہ پانی کی ٹینکیاں کیوں صاف نہیں کی گئیں؟
- دوسرا یہ کہ ہماری ٹیسٹ رپورٹس کب آئیں گی اور
- آخری سوال ٹیسٹ رپورٹس آنے کے بعد اگلے پلان کے بارے میں ہوگا کہ آیا ہمیں جانے دیا جائے گا یا نہیں۔
کچھ دیر بعد اسسٹنٹ کمشنر ندا کاظمی تشریف لائیں اور گفتگو شروع ہوئی۔ اسی دوران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ثاقب کاکڑ بھی آکر گفتگو میں شریک ہوگئے۔ دونوں انتہائی صبر سے ناصرف میرے کیے گئے سوالات کے جواب دے رہے تھے بلکہ درمیان میں ہونے والی غیر سنجیدہ مداخلت کو بھی کمال تحمل سے برداشت کر رہے تھے۔
ثاقب کاکڑ شروع میں مجھ سے تھوڑا نالاں لگے۔ انہیں شاید ایسا لگا تھا کہ یہ مجمع میں نے اکٹھا کیا ہے۔ جس کی وضاحت مجھے وہیں کرنا پڑی۔ مسافروں نے طے شدہ سوالوں کے علاوہ غیر متعلقہ اور بے سروپا گفتگو شروع کردی۔ ایک جوان لڑکا جو بہت زیادہ بول رہا تھا اور مجھے بار بار سنا رہا تھا کہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس لیے میں نے اسے خاموش کرانے کی نیت سے اس سے پوچھا کہ تمہارا اپنا مسئلہ کیا ہے؟
’میرے پاس سگریٹ نہیں ہیں‘، لڑکے نے جواب دیا۔
میں نے جیب سے سگریٹ کا ایک پیکٹ نکال کر اسے دیا جو اتفاق سے میری جیب میں موجود تھا۔ سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ آتے ہی لڑکا مجمعے سے علیحدہ ہوگیا اور اب اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ باقی کے مسائل حل ہوتے ہیں یا نہیں۔
ثاقب صاحب نے صفائی کا انتظام دیکھنے والے ذمہ دار کو بلا کر پانی کی ٹینکیوں کی دوبارہ صفائی کا حکم دیا۔ لیکن سامنے سے جواب ملا کہ سر ہم صفائی کا خیال رکھ رہے ہیں اور اب دوبارہ بھی کردیں گے لیکن پانی میں پائی جانے والی چھپکلیاں کسی کی شرارت لگتی ہے۔ اچھا ہوا کہ بات دب گئی ورنہ ایک اور لاحاصل بحث کا آغاز ہوجانا تھا۔ انتظامیہ کی طرف سے یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ آتے ہی تندرست مسافروں کو جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
ثاقب صاحب نے مجھے کہا کہ جلد از جلد کسی طرح ان مسافروں کو کمروں میں واپس لے جائیں اور کسی کو زائرین کے کیمپ کی طرف نہ جانے دیں۔
20 مارچ
20 مارچ کا دن سونے اور تاش کھیلنے میں گزر گیا اور دونوں کیمپوں میں زندگی معمول پر آگئی تھی۔ ہر کوئی کیمپ سے نکلنے کی ساری کوششیں کر لینے کے بعد اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہوچکا تھا کہ کیمپ میں قیام ناگزیر ہے۔
21 مارچ
میرے کیمپ میں ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کیا جا رہا تھا، اور 21 مارچ کی صبح تقریباً 11 بجے یہ انتظار اس وقت ختم ہوا جب مصطفی نے اطلاع دی کہ سب مسافروں کو باہر تھڑے پر جمع ہونے کے لیے بلایا جا رہا ہے جہاں انتظامیہ کے 2 افراد چند پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہاتھوں میں رپورٹیں اور لیپ ٹاپ پکڑے منتظر تھے۔
ایسا لگتا تھا جیسے جیل کے مرکزی دروازے کے نزدیک ضمانت پر رہا ہونے والے قیدیوں کے نام پکارے جانے والے ہیں۔ پریشانی سب کے چہروں سے عیاں تھی۔ ایک درمیانی عمر کے ڈاکٹر صاحب لسٹوں کے ساتھ مائک سنبھال چکے تھے۔ سب کو ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے ہونے کی ہدایت ایک بار پھر دہرائی گئی۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ جن جن کے نام پکاریں گے وہ مجمع سے علیحدہ ہوجائیں۔ نام پکارے جانے لگے۔ ناموں کی لسٹ بہت لمبی تھی لیکن ابھی تک کوئی مجمع سے باہر نہیں نکلا تھا۔ ابھی یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ پکارے جانے والے نام تندرست مسافروں کے ہیں یا وائرس زدہ۔ اگر یہ نام وائرس زدہ لوگوں کے تھے تو پریشانی کی بات تھی اور لگتا کہ سارا کیمپ ہی بیمار ہوچکا ہے لیکن جب کافی دیر تک کوئی شخص مجمع سے باہر نہ نکلا تو اس بات کا یقین ہوگیا کہ یہ نام متاثرہ لوگوں کے ہیں لیکن ناموں کی لسٹ دونوں کیمپوں کی مشترکہ ہے۔
میری توجہ اس وقت ٹوٹی جب فرمان کا نام پکارا گیا۔ ہم 6 لوگوں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا۔ بے یقینی اور پریشانی کی انتہا ہوچکی تھی۔ اعجاز نے حوصلہ کیا اور کہا یار نام اور ولدیت پتہ کرو۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ فرمان تو بالکل ٹھیک ہے۔ فرمان، مصطفی کا چھوٹا بھائی تھا جو پچھلے 11 دن سے میری برابر والی چارپائی پر سورہا تھا۔ فرمان گروہ سے علیحدہ ہوچکا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی کھڑا تھا جس کے نام پکارے جانے کا ہم ساتوں ساتھیوں میں سے کسی کو پتہ نہیں چلا۔ آپ یہ سمجھیں کہ یہ پچھلے 11 دن کا سب سے بڑا واقعہ تھا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
نام ختم ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے باقی لوگوں کو تیاری کرنے کا کہا۔ اعلان سنتے ہی مسافر نعرے لگاتے رقص کرتے کمروں کی طرف بھاگے۔ نہیں بھاگے تو ہم 5 جو اس وقت یہی دعا کر رہے تھے کہ اللہ کرے یہ نام فرمان کا نہ ہو۔ اس دوران اقبال صاحب کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں موجود تھے۔ اب وہاں کھڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا لہٰذا ہم پانچوں کمرے میں آگئے۔ کمرے میں آنے کے بعد بھی ہم حیران و پریشان ہی تھے، جبکہ ساتھ والے کمروں سے ابھی تک نعروں اور زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد اعجاز گویا ہوا ’یار صابر بھائی یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘، میرے پاس اس کے اس سوال کا جواب نہیں تھا۔
ابھی ہم لوگ یونہی بیٹھے تھے کہ فرمان کمرے میں آگیا اور کہا کہ اسے کہا گیا ہے کہ وہ نام تمہارا نہیں ہے۔ سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں یہ خوشی کسی کے چہرے سے دکھائی نہیں دی۔ شاید اچانک دکھ کے بعد انتہائی کم وقت میں ملنے والی خوشی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یا شاید حیرانی کی حالت میں کوئی خوشی خوشی نہیں لگتی۔ جو بھی تھا ہم خوش نظر آنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔
خبر تھی کہ چند گھنٹوں بعد سب کو جانے کی اجازت دے دی جائے۔ ہم سب کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ابھی تک ایف سی کے پاس جمع تھے۔ میں اور مصطفی جو اب کسی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا، پاسپورٹ کا پتہ کرنے نکلے۔ دفتر میں موجود ایف سی کے ایک صوبیدار نے بتایا کہ پاسپورٹس کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔
اسی دوران مجھے ثاقب کاکڑ صاحب نظر آئے اور میں نے ان سے پوچھا کہ سنا ہے ٹرانسپورٹ بند ہے تو ہم پنجاب والے واپسی کا کیا بندوبست کریں؟ انہوں نے مجھے پنجاب کے تمام مسافروں کے نام لکھ کر دینے کو کہا۔
22 مسافروں نے اپنے نام میرے پاس لکھوائے۔ 2 مسافر نام نہیں لکھوانا چاہتے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ انتظامیہ کوئی کھیل کھیل رہی ہے۔ دونوں کی دیکھا دیکھی 3 اور مسافروں نے بھی اپنے نام لسٹ سے خارج کر والیے۔ کچھ مسافر مجھ سے سوالات کر رہے تھے کہ نام کیوں مانگے جارہے ہیں؟ کیا ہمیں دوبارہ کہیں بھیجا جا رہا ہے؟ مجھے ثاقب کے لہجے اور گفتگو سے لگا تھا کہ پنجاب کے مسافروں کو ایک گاڑی میں روانہ کیا جائے گا اور یہی میں نے مسافروں کو بتایا۔ لیکن بے یقینی کی کیفیت برقرار تھی۔
ہمیں ایک فارم دیا گیا جس کو پُر کرنے سے مسافروں کی اکثریت گھبرا رہی تھی۔ فارم ایک اقرار نامہ تھا کہ انتظامیہ نے ہمیں وائرس سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر بتا دی ہیں اور ہمارا وائرس ٹیسٹ منفی آنے پر ہمیں اپنی مرضی سے جانے دیا جا رہا ہے۔ مجھے فارم پُر کرکے دینے میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔
کچھ مسافر تیاریوں میں مصروف تھے اور کچھ ابھی تک باہر کھڑے کسی حتمی اعلان کے انتظار میں تھے۔ بسوں کے ڈرائیور بسوں کو اسٹارٹ کرکے انجن گرمانے میں مصروف تھے۔ بسوں میں سونے کے لیے بچھائے جانے والے نئے بستر بسوں سے باہر پھینک دیے گئے تھے۔
میں نے پنجاب جانے والے مسافروں کے ناموں کی لسٹ بناکر ثاقب صاحب کے حوالے کردی۔ نام خارج کروانے اور نام نہ لکھوانے والے مسافروں سمیت کل 24 مسافر پنجاب جانے والے تھے۔
کمرے میں لوٹا تو دیکھا کہ اقبال صاحب اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف ہیں اور باقی اب بھی فرمان سے گفتگو میں مصروف تھے۔ میں نے سب سے کہا کہ چلو پاسپورٹ کا پتہ کرتے ہیں۔ میں، اعجاز، فرمان، مصطفی اور اقبال صاحب ایک بار پھر سیکیورٹی گیٹ کی طرف چل دیے۔
دوسرے کیمپ کے سامنے متعدد ایمبولینس تیار کھڑی تھیں۔ چند متاثرہ مسافروں کو تیزی سے ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا جبکہ کچھ مسافر روانگی کے لیے تیار اشارے کے منتظر تھے۔ ایک سپاہی مسافروں کے پاسپورٹ واپس کر رہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے اپنے نام بتاکر اپنے پاسپورٹ وصول کیے۔ فرمان نے اپنا پاسپورٹ مانگا تو سپاہی چونک پڑا اور پوچھا تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ ایک ڈاکٹر متوجہ ہوکر فوراً ہماری طرف آیا اور فرمان کو فوری طور پر الگ ہونے کا کہا۔
ایک بار پھر خوف اور پریشانی سے ہم ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔ مصطفیٰ نے بھائی ہونے کے ناتے فرمان کا پاسپورٹ وصول کیا۔ اس اچانک پریشانی سے مصطفیٰ کی حالت فرمان سے زیادہ خراب ہوچکی تھی۔ ہم سب کے پاس دونوں کو حوصلہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ ہمیں فرمان کو وہاں چھوڑ کر فوراً کمرے میں لوٹ جانے کا کہا گیا۔
کمرے تک آتے آتے سب کو مکمل چپ لگ چکی تھی۔ کسی کے پاس کہنے سننے کو کچھ نہیں تھا۔ فرمان میں 5 دن پہلے کیے گئے ٹیسٹ کے بعد سے اب تک کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہم میں سب سے زیادہ صحت مند اور متحرک نوجوان تھا۔ میرا خیال تھا کہ سیمپلنگ میں ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے۔ یہ آخری تسلی تھی جو میں نے خود سمیت تمام دوستوں کو دی۔
کچھ دیر بعد میں نے مصطفیٰ اور نعمان کو دوبارہ بھیجا کہ جاکر فرمان کی خبر لیں۔ انہوں نے واپس آکر بتایا کہ اسے جلد ہسپتال روانہ کردیا جائے گا اور یہ کہ اس کے ساتھ جانے یا رہنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب یہ طے ہوچکا تھا کہ ہم فرمان کے لیے دعا کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
رات کا کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ بھوک نام کی کسی چیز کا کسی کو احساس نہیں تھا۔ مصطفیٰ جب بھائی کو خدا حافظ کہہ کر لوٹا تو اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھا کہ چھوٹے بھائی کو رخصت کرنا کتنا بھاری گزرا ہے۔ سامنے والے کیمپ کی تمام بسیں جاچکی تھیں جس کا مطلب تھا کہ کیمپ خالی ہوچکا ہے۔ بعد میں آنے والے پہلے جاچکے تھے جبکہ ہمارے کیمپ کے باقی ماندہ مسافر اگلے حکم کے منتظر تھے۔
اب اگلا خوف اور سوال یہ تھا کہ کیا ہمیں پنجاب میں دوبارہ کہیں روکا جائے گا یا نہیں؟ رات تقریباً 11 بجے مسافروں کو اپنی اپنی بسوں میں سوار ہونے کا کہا گیا۔ ہم جو پہلے ہی سامان پیک کرچکے تھے کمروں میں آخری نگاہ ڈال کر عمارت سے نکل آئے۔ ہمارے کیمپ کی 3 بسیں آگے پیچھے مین گیٹ پر پہنچیں۔ ایف سی کے ایک جوان نے ہماری بس میں داخل ہوکر کہا جتنے مسافر پنجاب جانے والے ہیں وہ بس سے اپنا سامان نکال کر نیچے اتر آئیں۔
ہمارے نیچے اترتے ہی بسوں کو جانے دیا گیا۔ اب کیمپ میں پنجاب جانے والے مسافروں، انتظامیہ اور سیکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ایک اور لڑکا سب سے الگ تھلگ وہاں بیٹھا ایمبولینس کی واپسی کا منتظر تھا جسے ہسپتال منتقل کیا جانا تھا۔ مصطفیٰ نے فرمان کی کچھ رہ جانے والی لازمی چیزیں اس لڑکے کے حوالے کیں جو اس نے ہسپتال جاکر فرمان کو پہنچانے کا وعدہ کیا اور ہمیں تسلی دی کہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں وہ فرمان کا خیال رکھے گا۔
مسافر بسوں کے روانہ ہوتے ہی دوبارہ انتظامیہ کے نمائندگان کو گھیر چکے تھے۔ سب اس بات کی یقین دہانی چاہتے تھے کہ ہمیں راستے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ کچھ مسافر اس بات پر بضد تھے کہ ہمیں تنہا جانے دیا جائے اور ہم پنجاب جانے کا بندوبست خود کرلیں گے یا یہ کہ ہمیں پنجاب جانے سے پہلے کوئٹہ میں کچھ ضروری کام نمٹانے ہیں۔
دراصل یہ سب فرار کے بہانے تھے۔ ثاقب صاحب نے سب پر واضح کیا کہ کسی بھی شخص کو کوئٹہ شہر میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تمام مسافروں کو انتظامیہ کی طرف سے ایک بس میں پنجاب بھیجا جائے گا۔ انہوں نے بلوچستان حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے کلیئرنس سرٹیفیکیٹ دینے کی ہامی بھری تاکہ ہمیں راستے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اس کے ساتھ ہی انتہائی صاف گوئی سے کہا کہ اگر پنجاب حکومت پھر بھی روکنا چاہے تو اس کو روکا نہیں جاسکتا۔ چند مسافر مجھ سے ناراض تھے کہ میں نے لسٹ بناکر کیوں دی حالانکہ سب جانتے تھے کہ انتظامیہ کے پاس کے شناختی کارڈ اور دیگر معلومات پہلے سے موجود تھیں۔ ہم اگر لسٹ بناکر نہ بھی دیتے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔
22 مارچ
واپسی کا سفر 22 مارچ کی صبح 2 بجے شروع ہوا۔ ناشتے کے لیے ایک جگہ بس کو روکا گیا جہاں مسافروں سے پوچھا گیا کیا آپ لوگ ایران سے آ رہے ہیں؟ کسی نے جواب نہ دیا اور خاموشی سے ناشتہ کرنے کے بعد دوبارہ بس میں آ بیٹھے۔ ملتان تک کا سفر انتہائی تیزی سے طے ہوا۔ راستے میں کئی چیک پوسٹیں آئیں اور گزر گئیں۔
اعجاز نے مشورہ دیا کہ سرگودھا جانے کے لیے بہتر یہی ہے کہ ملتان اتر جائیں لہٰذا میں اور اعجاز چند اور مسافروں سمیت ملتان شہر اتر گئے۔ جہاں سے ہم ایک ساتھ فیصل آباد پہنچے۔ مصطفیٰ نے بعد میں فون کرکے بتایا کہ باقی مسافروں کو بھی ملتان کے مرکزی بس اسٹینڈ سے ان کے شہر جانے والی بسوں میں بٹھایا گیا۔ لاہور جانے والے مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کہ وجہ سے ایک چھوٹی گاڑی بُک کی گئی جس کا کرایہ بس انتظامیہ نے ادا کیا۔
اعجاز کا سفر فیصل آباد اور میرا سفر سرگودھا پہنچ کر ختم ہوا۔ فرمان کا میڈیکل ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد سے میں فیصلہ کرچکا تھا کہ میں سرگودھا جاکر مزید 2 ہفتے اکیلا رہوں گا۔ لہٰذا سرگودھا پہنچ کر میں سیدھا اپنے ایک خالی گھر پہنچا جہاں میں نے 5 اپریل تک تنہا قیام کیا۔ اس دوران سرگودھا سے ایک میڈیکل ٹیم مجھے دیکھنے آئی۔ اعجاز کو بھی دوبارہ ٹیسٹ کے لیے فیصل آباد کے کسی ہسپتال میں لے جایا گیا اور پھر واپس گھر چھوڑا گیا۔
فاروق اور نعمان اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔ اقبال صاحب نے ابھی تک رابطہ نہیں کیا۔ میں، مصطفی، اعجاز اور فرمان واٹس ایب گروپ کے ذریعے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس سفر کی سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ فرمان 2 ہفتے مزید کوئٹہ میں گزار کر اپنے شہر لاہور پہنچ چکا ہے اور میں اپنے گھر منتظر ہوں کہ پروازیں کھلیں اور میں پہلی فلائٹ لے کر دوبارہ سعودی عرب لوٹ جاؤں۔
تبصرے (7) بند ہیں