کورونا وائرس: مشکلات میں امید کی ایک کرن
پاکستان کی موجودہ آبادی 20 کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ ہم اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں 5ویں نمبر پر ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی والے ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے کبھی بھی مؤثر انداز سے نظامِ صحت کو مربوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ حکمران چاہے جمہوری رہے ہوں یا آمر، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وہ خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے ہیں۔
پاکستان کے گلی اور محلوں میں عطائی ڈاکٹروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کا ایک بڑا حصہ ڈاکٹروں اور صحتِ عامہ کی سہولیات سے محروم ہے۔
کورونا وائرس کی اس عالمی وبا کے دوران پاکستان کے نظامِ صحت پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آئی کہ پورے ملک میں صرف 2 ہزار 200 وینٹی لیٹرز ہیں جن میں سے آدھے ناقابلِ استعمال ہیں۔ مریضوں کے لیے دستیاب ہسپتالوں اور بستروں کی تعداد بھی ناکافی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک لاکھ افراد کی آبادی کے لیے زندگی بچانے والے آلات سے لیس کم از کم ایک ایمبولینس ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی آبادی کے حساب سے ملک میں لائف سیونگ ایمبولینسوں کی تعداد بہت کم ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت 200 سے زائد ممالک کورونا وائرس کی وبا سے مقابلہ کررہے ہیں اور اس وقت دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ عالمی سطح پر اموات کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔
پاکستان میں بھی اب تک 6 ہزار 500 سے زیادہ افراد اس بیماری کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ اموات کی تعداد 128 تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حفاظتی و احتیاطی اقدامات کی بدولت ابھی تک بیماری کے پھیلاؤ کی شرح ہمارے نظامِ صحت کے لیے قابلِ برداشت ہے لیکن تھوڑی سی بھی بداحتیاطی کے نتیجے میں یہ معاملہ ہمارے اختیار سے باہر نکل سکتا ہے۔
پاکستان نے ماضی میں زلزلوں، سیلابوں اور قحط کی صورت میں بہت سی قدرتی آفات کا مقابلہ کیا ہے لیکن کورونا کی وبا منفرد نوعیت کی آفت ہے۔ عمومی طور پر قدرتی آفات ایک جھٹکے میں ہی تباہی مچا دیتی ہیں اور حکومتی اداروں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتنا نقصان ہوا ہے اور امداد کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے، مگر کورونا وائرس ایک ایسی پریشانی ہے جو آہستہ آہستہ پنجے گاڑتی جارہی ہے اور نقصان کا ٹھیک سے اندازہ ہی نہیں ہو پارہا ہے۔
لیکن پاکستان کے معاملے میں ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ وبا کے پھیلاؤ کی رفتار اندازوں سے بہت سست ہے، جس کی وجہ سے حکمرانوں کو یہ موقع مل چکا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں مریضوں کے ممکنہ اضافے کے پیشِ نظر اپنی تیاری کرلیں تاکہ پاکستان میں اموات پر زیادہ سےز یادہ قابو پایا جاسکے۔
کورونا وائرس کے بحران کی بدولت کئی عشروں بعد ہر ہر سطح کی حکومتوں کی توجہ شعبہ صحت پر مرکوز ہوگئی ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ وینٹی لیٹرز کی تعداد میں اضافے کے لیے کوشش کی جارہی ہے۔ وینٹی لیٹرز کی تعداد میں اضافہ پاکستان کے نظامِ صحت میں دیرپا بہتری کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
آج سے چند سال قبل کراچی کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں میری والدہ کو ایک رات ایمرجنسی وارڈ میں صرف اس لیے گزارنی پڑی تھی کیونکہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وینٹی لیٹر بیڈ خالی نہیں تھا۔
میری والدہ کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے جب مجھے یہ کہا کہ 'انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وینٹی لیٹر والے بیڈ پر موجود مریض قریب المرگ ہے، اس کی وفات کے بعد ہم آپ کی والدہ کو فوری طور پر اس بیڈ پر منتقل کردیں گے' تب میرے پیروں تلے زمین ہی جیسے کھسک گئی ہو۔
اس موقع پر میں نے سوچا کہ اگر مجھ جیسا مالی طور پر مستحکم شخص صحت کی سہولت حاصل کرنے سے قاصر ہے تو مالی طور پر کمزور و ناتواں طبقے کے لوگ آخر کس طرح طبّی ضروریات پوری کرتے ہوں گے؟
کورونا وائرس بحران کے پیش نظر کراچی اور لاہور کے ایکسپو سینٹر میں عارضی ہسپتال قائم کیے گئے ہیں۔ مستقبل میں جب ان عارضی ہسپتالوں کو ختم کیا جائے گا تو ان میں نصب قابلِ استعمال سامان کو کام میں لانے کے لیے نئے ہسپتالوں کی ضرورت ہوگی۔
تمام صوبائی حکومتوں کو ابھی سے ایسی حکمتِ عمل بنانی چاہیے جس کی بدولت ان طبّی سازو سامان کو ضائع کرنے کے بجائے مریضوں کی بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
کورونا وائرس کے باعث ملک بھر میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے اعداد و شمار بھی اکٹھا کیے جا رہے ہیں۔ مستقبل میں یہ ڈیٹا حکام کو ملک کے مختلف علاقوں میں شعبہ صحت سے وابستہ انسانی وسائل کی کمی کا پتا لگانے میں مدد دے گا اور اس کی بنیاد پر وہ ان علاقوں میں مزید عملے کا بندوبست کرسکیں گے۔
صحت کے شعبے سے حکومتوں کی عدم توجہی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں صرف 6 بڑے سرکاری ہسپتال ہیں اور اس شہر میں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو علاج معالجے کے لیے نجی ہسپتالوں یا محلوں میں ذاتی کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اب کون یہ بات نہیں جانتا کہ ان زیادہ تر نجی ہسپتالوں اور کلینک میں کس طرح مریضوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ کورونا کی یہ وبا شاید پاکستان کے لیے blessing in disguise (باپردہ رحمت) ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس وقت وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی حکومتیں صحت عامہ کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔
اگلے چند ہفتوں میں تمام صوبائی حکومتیں اپنے اپنے سالانہ بجٹ کی تیاری کے لیے اجلاس طلب کریں گی، اب چونکہ 18ویں ترمیم کے مطابق صحت صوبائی معاملہ ہے لہٰذا میری رائے میں ہر صوبائی حکومت کو اپنے آئندہ صوبائی بجٹ کا کم از کم 10 فیصد حصہ شعبہ صحت کے لیے مختص کرنا چاہیے۔
پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اتنی بڑی آبادی کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے ان حکومتوں کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مجھے امید ہے کہ حکومتیں اپنی اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیتے اور کورونا وائرس کی وبا سے سبق سیکھتے ہوئے صحت کے شعبے کا معیار مستقل بنیادوں بہتر کرنے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کریں گی۔
تبصرے (2) بند ہیں