جماعت اسلامی کے کارکن کا قتل، مقدمے میں سرکاری اہلکار سمیت 6 افراد نامزد
سرجانی پولیس نے جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے قتل اور دیگر 3 کارکنوں کو زخمی کرنے کے الزام میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار سمیت 6 افراد کے خلاف مقدمہ درج کردیا۔
پولیس اور جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق گزشتہ روز تیسر ٹاؤن میں مسلح افراد نے کارکنوں پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ایک رکن جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد موٹر سائیکل پر سوار نے سیکٹر 36 'سی' میں واقع جماعت اسلامی کے دفترمیں کارکنوں پر فائرنگ کی جہاں کارکن کورونا وائرس کے باعث کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران راشن تقسیم کرنے کے کام میں مصروف تھے۔
مزید پڑھیں:کراچی: ہوائی فائرنگ سے خاتون جاں بحق، 4 پولیس اہلکار زیرحراست
سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ مقتول کے بھائی کی مدعیت میں تین معلوم اور متعدد نامعلوم افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان کے سیکشن 302، 324، 504، 147، 148 اور 149 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی ہے۔
پولیس افسر نے انکشاف کیا کہ ایف آئی آر میں نامزد 6 افراد میں سے ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اہلکار ہے جبکہ ابھی معلوم افراد کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے کارکن کے قتل کی وجہ ایک روز قبل ہونے ہونے والے ایک جھگڑے کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔
تصادم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اور دوسرے گروپ کے افراد ایک ہی علاقے میں راشن تقسیم کرنے میں مصروف تھے تاہم تصادم اس وقت شروع ہوا جب جم غفیر امڈ آیا تو دونوں گروپس نے ایک دوسرے پر بدانتظامی کا الزام عائد کیا۔
سرجانی ٹاؤن پولیس کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف کے کارکنوں میں بحث جھگڑے میں تبدیل ہوگئی اور ایک دوسرے پر پتھروں، ڈنڈوں اور اینٹوں سے حملہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں پولیس کی مداخلت کے بعد صورتحال معمول پر آئی اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر کارکنوں کو منتشر کردیا۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ حکومت نے راشن کی تقسیم کیلئے ایک ارب 8 کروڑ روپے جاری کیے ہیں، سعید غنی
اطلاعات کے مطابق تصادم کے دوران فائرنگ کرنے والے گروپ کا ایک رکن زخمی ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں اگلے روز مسلح موٹر سائیکل سوار افراد جماعت اسلامی کے دفتر کے باہر پہنچے اور ان میں سے 2 افراد نے بائیک سے اتر کر دفتر کے باہر کھڑے نوجوانوں پر فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔
پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے نتیجے میں 35 سالہ شخص جاوید احمد موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جبکہ دیگر 3 افراد زخمی ہوگئی جس میں مقتول کا بڑا بھائی سلیم بھی شامل ہے، مزید یہ کہ دیگر زخمیوں میں 22 سالہ عظیم اور 18 سالہ عدنان شامل ہیں۔
عباسی شہید ہسپتال میں ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ مقتول کے سینے میں دو گولیاں لگی تھیں جبکہ زخمی افراد کی حالت خطرے سے باہر ہے اور ان کے ہاتھوں اور ٹانگوں میں گولیاں لگی ہیں۔
ایک افسر کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے مقتول کارکن سندھ کے ضلع ٹھٹہ سے تعلق رکھتے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور تھے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے پارٹی کے کارکنان پر حملے پر مذمت کا اظہار کیا اور اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی انتظامیہ کی ناکامی قرار دیا۔
مزید پڑھیں:سندھ حکومت کو فراہم کردہ راشن بیگز میں غیر معیاری سامان کی موجودگی کا انکشاف
ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ جو لوگ اس بحرانی صورت حال میں دوسروں کی مدد کے لیے کام کر رہے ہیں انہیں بھی سیاسی وجوہات اور نفرت کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم سیکیورٹی کے ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قاتل اور اس کے پیچھے جو بھی ہیں انہیں گرفتار اور سزا دی جائے۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ مشتبہ افراد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی ہیں۔