• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

وزیر اعظم کا ملک گیر لاک ڈاؤن میں 2 ہفتے توسیع کا اعلان

شائع April 14, 2020 اپ ڈیٹ April 15, 2020
وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے توسیع کا اعلان کیا— فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے توسیع کا اعلان کیا— فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کردیا ہے۔

اسلام آباد میں نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہم نے کرکٹ میچ، گراؤنڈ، دکانیں، شاپنگ مال اور شادی ہال سمیت جہاں بھی لوگ جمع ہوسکتے تھے ان سب کو بند کردیا کیونکہ اگر ایسا نہ کرتے تو وائرس تیزی سے پھیل سکتا تھا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: سندھ میں مزید 4 افراد کی موت، مجموعی تعداد 100 ہوگئیں

ان کا کہنا تھا کہ اس وائرس کی ایک عجیب چیز ہے کہ جہاں بھی لوگ جمع ہوتے ہیں وہاں یہ تیزی سے پھیلتا ہے اور اسی لیے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کردیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

پاکستان میں احتیاط کی وجہ سے کم کیسز رپورٹ ہوئے، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے عوام کے تحفظ اور وائرس کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن میں مزید 2 ہفتے توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم نے قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے عوام نے تعاون کرتے ہوئے وائرس کو زیادہ تیزی سے پھیلنے سے روکنے کیلئے بھرپور تعاون کیا جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وائرس ہمارے اندازوں سے کم محض 30 فیصد پھیلا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار سے متجاوز

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو کم از کم تخمینہ لگایا تھا اس لحاظ سے اب تک 190 اموات ہونی چاہیے تھیں لیکن ہمارے مؤثر اقدامات اور لاک ڈاؤن کی بدولت آج اموات کی تعداد اس کی نسبت انتہائی کم ہے۔

وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ہمارے اقدامات کی بدولت کیسز سے متعلق جو اندازہ لگایا گیا تھا اس کے مقابلے میں صرف 30 فیصد رپورٹ ہوئے ہیں جو ایک اچھی خبر ہے اور امریکا، اٹلی اور اسپین سمیت باقی دنیا کے مقابلے میں ہمارے ملک میں اموات بھی بہت کم ہوئیں۔

بداحتیاطی نہ کریں، وائرس کسی بھی وقت پھیل سکتا ہے، عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا کہ یہ وائرس کسی بھی وقت پھیل سکتا ہے تو ہمیں احتیاط کرنا نہیں چھوڑنا چاہیے، سب کو احتیاط کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: سندھ کے تاجروں کا 15اپریل سے کاروبار کھولنے کا اعلا

ان کا کہنا تھا کہ جس لحاظ سے یہ وائرس پھیل رہا ہے، اگر اسی طرح پھیلا تو ہمارا صحت کا نظام اس کا بوجھ برداشت کر لے گا جہاں ہم نے اس کی مدد کے لیے وینٹی لیٹرز، ادویات اور حفاظتی کٹس وغیرہ منگوائی ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سے بداحتیاطی ہوئی اور یہ وائرس پھیلا تو پھر ہمارا نظام صحت اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گا۔

ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں، وزیراعظم

وزیراعظم نے کہا کہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں جس میں سے ایک کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا ہے اور دوسرا مسئلہ بیروزگاری ہے جو سب جگہ پھیل چکی ہے اور ہمیں لاک ڈاؤن برقرار رکھتے ہوئے انہیں ریلیف فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غریبوں کی مدد کے لیے ہم نے احساس پروگرام شروع کیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے اور کبھی بھی اتنی جلدی ہمارے ملک میں ایمرجنسی پروگرام متعارف نہیں کرایا گیا۔

وزیر اعظم نے اپنے پرانے مؤقف کو ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے اور مجھے فخر ہے کہ یہ مکمل طورپر میرٹ پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کورونا کیسز 10 ہزار سے متجاوز، لاک ڈاؤن میں 3 مئی تک توسیع

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس پروگرام میں ابتدائی طور پر چھوٹ گئے ہیں ان کے لیے ایس ایم ایس سروس شروع کی جا رہی ہے جس کے ذریعے انہیں بھی 12 ہزار روپے کی رقم مل سکے گی۔

عمران خان نے بتایا کہ احساس پروگرام کے تحت اب تک 28 لاکھ خاندانوں کو پیسہ مل چکا ہے اور ان میں 45 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں اور یہ پروگرام چلتا رہے گا۔

کنسٹرکشن سمیت مختلف صنعتیں کھول رہے ہیں، عمران خان

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے دیہاتوں میں کسی بھی قسم کی پابندی نہیں لگائی اور اب گندم کی کٹائی کا بھی سیزن ہے جس سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور ہمارے پاس وافر مقدار میں اناج بھی ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آج سے شہروں میں تعمیرات سمیت کئی صنعتوں کو کھول دیں اور اس معاملے پر تمام صوبوں میں تفصیلی مشاورت ہوئی ہے جس کے بعد 98 فیصد اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ ہم نے کونسی صنعت کھولنی ہے اور کونسی نہیں کھولنی۔

مزید پڑھیں: پرواز سے قبل مسافروں سے کورونا بچاؤ کا فارم پر کروایا جائے گا، سول ایوی ایشن

عمران خان نے واضح کیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس اختیارات ہیں تو آج بھی اگر کوئی صوبہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ابھی صنعتیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا وہ اس معاملے کو مؤخر کرنا چاہتے ہیں تو یہ اختیار ان کے پاس ہے اور وفاق ان پر اپنی سوچ لاگو نہیں کرے گا۔

وزیر اعظم نے تعمیراتی صنعت کھولنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ موڈیز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جس صنعت کو وائرس سے سب سے کم خطرہ ہے اس میں تعمیراتی صنعت سرفہرست ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم کل کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے ایک آرڈیننس لے کر آ رہے ہیں جو پاکستان کی کنسٹرکشن کی صنعت کے لیے ایسا پیکج ہو گا جو آج تک پاکستان کی تاریخ میں نہیں دیا گیا۔

رمضان المبارک کیلئے علما کی مدد سے درمیانی راہ نکالیں گے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو پیغام دیا کہ حکومت اس مسئلے کو بھی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے لیکن ابتدائی طور پر وائرس باہر سے آنے والے افراد سے پھیلنے کی وجہ سے صوبوں میں بہت خوف ہے کہ اگر ہم نے مکمل تیاری کے بغیر پاکستانیوں کو آنے دیا تو خدشہ ہے کہ یہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں 2 کورونا ویکسینز کی انسانوں پر آزمائش کی منظوری

وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک آ رہا ہے اور اس ماہ مبارک میں لوگ مساجد بھی جاتے ہیں اور تراویح پڑھتے ہیں تو میں نے تمام مکاتب فکر کے علما کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے جن سے ہم مشاورت کریں گے کہ ہم کیا اقدامات اٹھائیں کہ عبادت بھی کر سکیں اور کورونا سے بھی بچا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تمام مکاتب فکر کے علما سے مشاورت کے بعد انشااللہ رمضان سے پہلے آپ سب کو بتائیں گے کہ ہم اس میں توازن کیسے قائم کر سکتے ہیں۔

پاکستان کو اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی سے سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے، عمران خان

وزیر اعظم نے کہا کہ اس ملک کو دو بڑی چیزوں سے خطرہ ہے، ایک اسمگلنگ ہے، باہر ممالک میں گندم کی قیمت بڑھ گئی ہے اور لوگ خوف کا شکار ہو کر گندم جمع کر رہے ہیں جس سے ہمارے ملک سے گندم کی اسمگلنگ کا خطرہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ڈالر بھی اسمگل ہو کر جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف آرڈیننس لے کر آ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: کورونا کا ٹیسٹ کرنے کے بہانے روکی گئی خاتون کا گینگ ریپ

انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں گی، ہم لوگوں کو پیسے دے رہے ہیں لیکن اگر ذخیرہ اندوزی سے چیزوں کی قیمت ہی اوپر چلی جائے گی تو ان لوگوں کا پیسہ بہت جلدی ختم ہو جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہر سال رمضان المبارک سے قبل ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی مہنگائی کی جاتی ہے اور اس سے چند لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اب سخت ترین سزائیں دی جائیں گی جبکہ ذخیرہ اندوزی پر ہم منیجر کو نہیں بلکہ مالک کو پکڑیں گے اور سزائیں دیں گے۔

14 اپریل تک 18ہزار افراد کے وائرس سے متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا تھا، ڈاکٹر ظفر مرزا

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اعدادوشمار بتاتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر 20 لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار اور ایک لاکھ 20 ہزار افراد وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اب تک 51 ہزار 432 ٹیسٹ کیے ہیں جس میں سے 5 ہزار 716 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور اب تک 96 افراد کی موت ہو چکی ہے اور 24 گھنٹے میں مزید 3 اموات ہوئی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے خبردار کیا کہ کم اموات کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہمارے ملک میں مزید اموات کا اندیشہ نہیں بلکہ ابھی بھی کم از کم 46 افراد کی حالت نازک ہے اور وہ وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہم نے 14 اپریل کے حوالے سے تخمینہ لگایا تھا کہ پاکستان میں کیسز کی تعداد 18 ہزار سے تجاوز کر جائے گی لیکن پاکستان میں 5 ہزار 716 افراد وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور یہ تعداد دو تہائی سے کم ہے تاہم اس کے باوجود ہمیں کسی بھی قسم کی بداحتیاطی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

انہوں نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم نے تخمینہ لگایا تھا کہ آج تک پاکستان میں 191 اموات ہونی تھیں جبکہ ہمارے ہاں اموات تقریباً 100 سے بھی کم ہیں اور یہ سب احتیاط کے سبب ممکن ہو سکا۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ کچھ ذمے دار رہنماؤں کی جانب سے بھی یہ الزام عائد کیا گیا کہ کسی بھی قسم کا رابطہ یا کوآرڈینیشن نہیں ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی بھی ایمرجنسی حالات میں اتنی منظم انداز میں مشاورت اور کوآرڈینیشن نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس فورم کے قیام کے بعد سے لے کر اب تک ایک ماہ کے دوران 9 مرتبہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہو چکا ہے اور آج ہونے والے اجلاس میں 98 فیصد چیزوں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔

ان صنعتوں کو کھول رہے ہیں جہاں وبا پھیلنے کے امکانات انتہائی کم ہیں، وزیر صنعت

وفاقی وزیر برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان میں روزمرہ کی ضروری اشیا، ادویہ، زراعت، پیٹرولیم، بینکاری، میڈیا اور ریلیف کی سرگرمیاں انجام دینے والے اداروں کو کھلا رکھنے پر تمام صوبوں اور وفاقی حکومت نے اتفاق کیا تھا اور ان سے منسلک تمام تر کاروبار بھی پاکستان میں کھلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کی ہدایت پر ان صنعتوں کا بھی پتہ لگایا جہاں وبا پھیلنے کے امکانات انتہائی کم ہیں اور تمام اکائیوں اور صوبوں کے اتفاق سے مندرجہ ذیل صنعتیں کھولنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

  • کیمیکل مینوفیکچرنگ پلانٹس
  • ای کامرس ایکسپورٹ کے لیے، ای کامرس کو مقامی سطح پر بھی ضروری اشیا کی ڈیلیوری کے لیے کام کی اجازت ہو گی۔
  • سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اینڈ پروگرامنگ
  • پیپر اینڈ پیکیجنگ یونٹس۔
  • وہ صنعتیں جن کی افرادی قوت ان کے کام کے احاطے میں موجود ہے۔
  • سیمنٹ پلانٹس
  • فرٹیلائزر پلانٹس
  • مائنز اور منرلز
  • دھوبی، ڈرائی کلینرز اور لانڈری کی سروسز
  • پودوں اور درختوں کی نرسریاں
  • زراعت کیلئے مشینری اور ان کے آلات بنانے والے یونٹس کو بھی کھولا جائے گا
  • شیشہ بنانے والی صنعتیں
  • ویٹرنری سروسز (جانوروں کو طبی امداد کی فراہمی کے ہسپتال)
  • تمام ایکسپورٹ انڈسٹریز کو مشروط اجازت ہو گی (ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پہلے ان کے ایکسپورٹ آرڈرز کو کنفرم کرے گی)
  • کتابوں اور اسٹیشنری کی دکانیں

حماد اظہر نے کہا کہ ان تمام صنعتوں کو مکمل حفاظتی تدابیر کے ساتھ کھلنے کی اجازت ہو گی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ دونوں شعبوں کے حوالے سے صوبوں اور وفاق کی مختلف آرا نظر آئیں جس میں سے ایک الیکٹریشنز، درزی، ریڑھی لگانے والے شامل ہیں اور اس میں وفاقی حکومت کی تجویز تھی کہ ان کو کھولا جائے تاکہ وہ ذریعہ معاش بحال کر سکیں لیکن اس پر مختلف آرا سامنے آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کنسٹرکشن کی صنعت کو مرحلہ وار کھولا جائے جس میں سب سے پہلے تعمیراتی صنعت کی بنیادی چیزیں مثلاً اینٹ، سیمنٹ وغیرہ سے منسلک سرگرمیوں کو ملک بھر میں بحال کیا جائے۔

وفاقی وزیر صنعت نے بتایا کہ سیمنٹ پلانٹ، اینٹوں کے بھٹے اور بجری کے کرشنگ پلانٹس کو ابتدائی طور پر کھولنے کیلئے اتفاق ہوا جبکہ کنسٹرکشن سائٹس کو کھولنے کے حوالے سے صوبوں میں اتفاق رائے نہیں تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024