کورونا مہلک وبا سوائن فلو سے 10 گنا زیادہ خطرناک ہے، عالمی ادارہ صحت
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس ایک دہائی قبل پھیلنے والی مہلک وبا سوائن فلو سے بھی دس گنا زیادہ خطرناک ہے، اس لیے حفاظتی اقدامات میں سستی نہ کی جائے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کو کسی بھی وبا سے زیادہ خطرناک قرار دیے جانے کا اعلان ایک ایسے دن سامنے آیا جب کہ کورونا سے متاثرہ بڑے یورپی ملک اسپین نے حفاظتی اقدامات کے تحت نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کو نرم کیا۔
اسپین نے تقریبا 5 ہفتوں بعد 13 اپریل کو لاک ڈاؤن کو نرم کرتے ہوئے لاکھوں افراد کو کام پر جانے کی اجازت دی اور ساتھ ہی محدود پیمانے پر پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی چلانے کی اجازت دی۔
اسپین میں 13 اپریل تک ایک لاکھ 64 ہزار افراد کورونا سے متاثر جب کہ 17 ہزار 400 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
اسپین نے مارچ کے آغاز میں کورونا سے بچاؤ کے لیے سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا اور تقریبا 5 ہفتوں تک وہاں کاروباز زندگی معطل رہا تھا لیکن حکومت نے وہاں 13 اپریل کو لاک ڈاؤن میں نرمی کردی۔
اسپین کی طرح امریکا کی بھی کچھ ریاستوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا جب کہ یورپی ممالک آسٹریا، ناروے اور جمہوریہ چیک نے بھی 13 سے 15 اپریل کے درمیان لاک ڈاؤن کو نرم کرنے کا اعلان کیا، جس پر عالمی ادارہ صحت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسپین سمیت دیگر یورپی ممالک کی جانب سے لاک ڈاؤن کو نرم کیے جانے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو 2009 میں دنیا بھر میں پھیلنے والی وبا سوائن فلو جسے ایچ ون، این ون بھی کہا جاتا تھا اس سے زیادہ مہلک قرار دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم نے جنیوا میں ماہرین سے کی جانے والی آن لائن بریفنگ کے دوران کہا کہ تحقیق اور ثبوتوں سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا وائرس ایک دہائی قبل پھیلنے والی وبا سوائن فلو سے 10 گنا زیادہ خطرناک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی وبا کیا ہے، سوائن فلو سے کتنے لوگ مرے تھے ؟
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اب تک ہونے والی تحقیقات سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہےکہ کورونا وائرس مجمع میں پھیلتا ہے، اس لیے ممالک کو لاک ڈاؤن میں نرم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے متعلق اب بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم سیکھ رہے ہیں۔
عالمی ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی بروقت تشخیص، مریض کو دوسرے سے الگ کرنے اور بہت بڑی آبادی کو ایک دوسرے سے دور رکھ کر اس وبا پر کنٹرول پایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے بریفنگ میں سماجی دوری سمیت لاک ڈاؤن کو نرم نہ کرنے جیسی باتوں کو دہرایا، تاہم انہوں نے لاک ڈاؤن کو نرم کرنے والے کسی بھی ملک کا نام نہیں لیا۔
انہوں نے بتایا کہ 2009 میں پھیلنے والی وبا سوائن فلو کم عرصے تک دنیا میں رہی تھی اور اس سے تصدیق شدہ اموات محض 19 ہزار سے بھی کم تھیں جب کہ اس وبا نے دنیا بھر میں 16 لاکھ افراد کو متاثر کیا تھا۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس سے دسمبر 2019 کے وسط سے لے کر 14 اپریل کی صبح تک دنیا بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 19 لاکھ 20 ہزار سے زائد جب کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 19 ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔
مزید پڑھیں: کیا کورونا وائرس دیگر عالمی وباؤں سے زیادہ خطرناک ہے؟
اگرچہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد سوائن فلو سے متاثرہ افراد کے مقابلے تھوڑی سی زیادہ ہے، تاہم کورونا وائرس کے مریضوں میں یومیہ 25 سے 35 ہزار افراد کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جب کہ اس سے ہونے والی ہلاکتیں سوائن فلو کی ہلاکتوں سے 5 گنا زیادہ ہیں اور ان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کورونا وائرس مزید 4 سے 6 ماہ تک دنیا میں اپنی شدت کے ساتھ برقرار رہ سکتا ہے اور اس دوران اس وبا سے ہلاکتوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔
کورونا وائرس کے مقابلے سوائن فلو محض ایک سال سے بھی کم عرصے تک شدت کے ساتھ دنیا میں رہا تھا، اگرچہ سوائن فلو کی وبا 2005 میں شروع ہوئی تھی تاہم 2009 میں یہ بیماری ایک بار پھر سامنے آئی اور جانوروں سے شروع ہونے والی اس بیماری کا آغاز ویتنام سے ہوا تھا۔
یہ وائرس ’انفلوائنزا‘ (فلو) کی ایک قسم تھا اور اسے (ایچ ون، وین ون) کا نام دیا گیا تھا۔
سوائن فلو سے دنیا بھر میں اندازا ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور اس سے ہلاکتوں کی تعداد 3 سے 5 لاکھ تک پہنچ گئی تھی، تاہم 13 اپریل کو عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ سوائن فلو کی وبا سے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 16 لاکھ جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 19 ہزار سے بھی کم تھی۔
عالمی ادارہ صحت نے ’سوائن فلو‘ کو اگست 2010 میں ’عالمی وبا‘ قرار دیا تھا۔