عالمی ادارہ صحت کے سربراہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پر کچھ دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی طرفداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عالمی ادارے نے کورونا سے متعلق حقائق چھپائے۔
امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت پر الزام لگایا تھا کہ وہ چین پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کررہا ہے اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ وہ ڈبلیو ایچ او کی مالی اعانت بند کردیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے امریکا کو اپنی سرحدین کھلی رکھنے کی تجویز دی تھی مگر انہوں نے ایسی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کے بعد اقوام متحدہ نے اپنے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت کی طرفداری کی تھی اور دنیا سے مدد کی اپیل برقرار رکھنے کی درخواست بھی کی تھی۔
امریکی صدر کی تنقید کے بعد ڈبلیو ایچ او نے بھی ان کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس وقت عالمی ادارے کی مالی معاونت روکنا خطرناک ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کے بعد عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہینز کلوگ نے کہا تھا کہ 'ہم اب بھی وبا کے اہم ترین مرحلے میں ہیں اس لیے ابھی یہ وقت نہیں کہ مالی معاونت روکی جائے'۔
لیکن امریکی صدر کی تنقید سے قبل ہی عالمی ادارہ صحت کے سربراہ سے استعفے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں اور اس ضمن میں ایک آن لائن پٹیشن کا بھی آغاز کردیا گیا تھا، جس پر اب 9 لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کردیے۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید سے قبل ہی عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس کے لیے ایک آن لائن پٹیشن کی مہم شروع کی گئی تھی۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم کے خلاف گزشتہ ماہ آن لائن پلیٹ فارم (چینج ڈاٹ او آر جی) پر ایک آن لائن پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں ان سے جلد سے جلد عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پٹیشن میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ایک عالمی تنظیم کے سربراہ کو غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونا چاہیے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ایسا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم نے سستی سے کام لیتے ہوئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق بر وقت اقدامات نہیں اٹھائے اور اسے عالمی وبا قرار دینے میں بھی تاخیر کی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر 'عالمی ادارہ صحت کے چین سے جانبدار' ہونے پر برہم
پٹیشن میں بتایا گیا کہ چین میں جنوری کے آخر میں ہی کورونا وائرس کے کیسز 3 گنا بڑھ چکے تھے اور ہلاکتیں بھی زیادہ ہو گئی تھیں اور محض 5 دن میں وہاں مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ وہاں ایک لاکھ کے قریب لوگ اس سے متاثر ہوچکے تھے مگر عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو وبا قرار نہیں دیا۔
آن لائن پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کے خلاف بروقت مناسب اقدامات نہ کرکے وبا کو پھیلانے میں کردار ادا کیا اور دنیا سمجھتی ہے کہ ٹیدروس ایڈہانوم نے اپنی ذمہ داریاں غیر جانبدارانہ انداز میں نہیں نبھائیں، اس لیے انہیں فوری طور پر عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم کے خلاف دائر کی گئی آن لائن پٹیشن پر اب تک 9 لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کردیے ہیں اور جب مذکورہ پٹیشن پر 10 لاکھ سے زائد دستخط ہوجائیں گے تو ان کے خلاف مزید کارروائی کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی۔
فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم کے خلاف دائر آن لائن پٹیشن کو امریکی کانگریس کے ارکان بھی سپورٹ کر رہے ہیں، جنہوں نے بھی ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پر جانبدار ہونے کا الزام لگا رکھا ہے۔
امریکی کانگریس ارکان نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی ایک ٹوئٹ کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کچھ ماہ قبل کہا تھا کہ ابھی اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ کورونا ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔
اسی طرح امریکی ارکان کانگریس اور صدر سمیت امریکی عہدیدار بھی ڈبلیو ایچ او کے سربراہ سے نالاں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹیدروس ایڈہانوم چین کی طرفداری کرنے سمیت چینی حکومت کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ڈبلیو ایچ او نے چین سے متعلق امریکی صدر کا الزام مسترد کردیا
واضح رہے کہ ٹیدروس ایڈہانوم 2017 میں عالمی ادارے کے سربراہ منتخب ہوئے تھے، ان کا تعلق افریقی ملک ایتھوپیا سے ہے، وہ ڈبلیو ایچ او کے پہلے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہیں جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر نہیں وہیں وہ سیاستدان اور سماجی رہنما بھی ہیں۔
ٹیدروز ایڈہانوم ماضی میں ایتھوپیا کے وزیر صحت اور وزیر خارجہ رہے ہیں جب کہ انہیں افریقہ میں ایڈز اور ملیریا پر کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ یعنی ڈی جی کے لیے ہر 5 سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اگرچہ خود مختار ہے مگر وہ اقوام متحدہ (یو این) کا ادارہ ہے جو عالمی برادری کے تعاون سے چلتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت سمیت اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ مالی معاونت امریکا سے ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہی امریکا مذکوہ عالمی اداروں کی پالیسیوں پر بھی کھل عام تنقید کرتا ہے۔