امریکا کا حزب اللہ کمانڈر شیخ محمد الکوثرانی کی معلومات دینے پر ایک کروڑ ڈالر انعام کا اعلان
امریکا نے ایران کی القدس فورس کے مقتول سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھی اور عراق میں حزب اللہ کے ایک سینئر فوجی کمانڈر شیخ محمد الکوثرانی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لیے ایک کروڑ ڈالر انعام کی پیش کش کردی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انعام کا اعلان کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ محمد الکوثرانی نے رواں برس جنوری میں بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے بعد ’ایران سے منسلک نیم فوجی دستوں کے کچھ سیاسی رابطوں کی ذمہ داری سنبھال لی ہے‘۔
مزید پڑھیں: قاسم سلیمانی کے قتل کی داستان سنانے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا سامنا
انہوں نے کہا کہ ’محمد الکوثرانی عراق میں نجی ملیشیا اور گروہوں کی کارروائیوں کو مدد فراہم کرتے ہیں‘۔
ان کا کہا تھا کہ مذکورہ گروپ مظاہروں کو پرتشدد کرتا ہے، غیر ملکی سفارتی مشنوں پر حملہ اور وسیع پیمانے پر منظم جرائم پیشہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
واضح رہے کہ محمد الکوثرانی کو 2013 میں امریکا نے ایک عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا جس پر عراق میں مسلح گروہوں کو مالی اعانت فراہم کرنے اور عراقی جنگجوؤں کو شام جانے کے لیے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بغاوت ختم کرنے کی کوششوں میں شامل ہونے میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد ہے۔
رائٹرز نے فروری میں یہ اطلاع دی تھی کہ دو عراقی ذرائع اور ایک سینئر عراقی رہنما کے مطابق محمد الکوثرانی کو عراقی ملیشیا کی ہدایت کرنے کے لیے اب تک سب سے موزوں شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا سے قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیں گے، ایران
مذکورہ رہنما نے کہا تھا کہ محمد الکوثرانی کے ملیشیا گروپوں سے روابط ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی، اپنے ساتھی محمد الکوثرانی پر غیر معمولی اعتماد کرتے تھے اور بغداد میں ہونے والے بحرانوں اور اجلاسوں میں ان کی مدد کرنے کے لیے ان پر انحصار کرتے تھے۔
واضح رہے کہ 3 جنوری کو امریکا نے عراق میں ڈرون حملہ کرکے ایرانی جنرل کا قتل کیا تھا جس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں ہی امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملے کیے تھے۔
بعدازاں ایران نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں 8 جنوری کو عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں 80 امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔
تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کے اگلے ہی روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران-امریکا کشیدگی: وزیر خارجہ کی ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات
علاوہ ازیں ایران کی پاسداران انقلاب نے سخت الفاظ میں امریکا کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کے خلاف کسی بھی اقدام یا جارحیت کی گئی تو مزید تکلیف دہ اور بھرپور ردعمل دیے جائیں گے۔