اگر میں کہوں کہ یہ تبصَرہ نہیں تبصِرہ ہوتا ہے تو؟
اعجاز رحمانی مرحوم بہت اچھے شاعر ہی نہیں تھے، زبان پر بھی بھرپور عبور تھا۔ ایک مشاعرے میں وہ بڑے اصرار سے ’تبصِرہ‘ کہہ رہے تھے، یعنی تیسرا حرف بالکسر (تبصِرہ)۔ انہوں نے بار بار یہ لفظ دوہرایا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو حضرات بڑھ چڑھ کر داد دے رہے تھے، خاص طور پر معلن، وہ مصرع اٹھاتے ہوئے ’تبصَرہ‘ یعنی ’ص‘ پر زبر کہہ رہے تھے (بروزن تذکرہ)۔
استاد کے منہ سے ’تبصِرہ‘ سن کر لغت دیکھنے کا خیال آیا کیونکہ ہم بھی تبصَرہ ہی کہتے تھے۔ لغت میں وہی ہے جو اعجاز رحمانی کہہ رہے تھے۔ عام طور پر لوگوں کے منہ سے تبصَرہ، تیسرے حرف پر زبر ہی سنا ہے۔
اب ہماری اصلاح تو ہوگئی، لیکن دوسرے بھی اپنی اصلاح کریں گے، اس کی ضمانت نہیں۔
ہم کب سے کوشش کررہے ہیں کہ ’دیہاڑی‘ میں سے ’ی‘ نکل جائے کہ یہ لفظ ’دہاڑی‘ اور ’دن دہاڑے‘ ہے۔ مگر پیر 30 مارچ کے جسارت ہی میں جلی سرخیوں میں ’دیہاڑی دار‘ شائع ہوا ہے۔ اس پر کس کا سر پیٹیں، اپنا ہی دستیاب ہے۔
اسی طرح ’چیئرمین‘ کی جمع ’چیئرمینز‘ نظر سے گزری۔ یہ نامعقول انگریزی زبان ہے۔ اس میں Man کی جمع Men ہے جو اردو میں ’مین‘ ہی لکھی جائے گی۔ لوگ مین ہول کو بھی Mane ہول سمجھتے ہیں، جب کہ یہ Man ہول ہے یعنی جس میں سے انسان گزر جائے۔ یہ مین ہول عام طور پر گٹر وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب کسی کو کیا پڑی کہ اس میں سے گزرے، مجبوری کی بات اور ہے۔
اخبارات میں ایک اصطلاح بہت عام ہے ’ناجائز منافع خوری‘۔ منافع حاصل کرنا بالکل جائز ہے، لیکن جب ’منافع خوری‘ کہا جائے تو اس میں ناجائز کا پہلو شامل ہوجاتا ہے، چنانچہ ’ناجائز‘ کا سابقہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح ’ناجائز تجاوزات‘ ہیں۔ تجاوز کا مطلب ہے حد سے آگے بڑھنا۔ کسی بھی معاملے میں حد سے آگے بڑھنا جائز نہیں، چنانچہ ناجائز تجاوزات میں بھی ’ناجائز‘ جائز نہیں۔
کراچی سے ملک محمد اعظم نے پوچھا ہے کہ یہ خلیل خان کون تھے جو فاختہ اڑاتے تھے۔ ان کے بارے میں ایک محاورہ ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے۔ ’اردو محاورات کا تنقیدی مطالعہ‘ میں ہے کہ ’فاختہ پالا نہیں جاتا (یا پالی نہیں جاتی)‘، کبوتر اڑانے کا رواج عام ہے لیکن فاختہ کوئی نہیں اڑاتا۔
خلیل خان ایک فرضی کردار ہے جو حماقت کی باتیں کرتے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ فاختہ اڑاتے تھے۔ گویا فاختہ اڑانا بے وقوفی کا عمل ہے اور محاورے میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح کے محاورے خاص کرداروں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ ’نوراللغات‘ میں فاختہ اڑانے کا مطلب ہے نکمے کام کرنا، عیش کرنا۔ جب کہا جائے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے، تو اس کا مطلب ہے کہ عیش و عشرت کے دن گزر گئے۔ لغت کے مطابق فاختہ مونث ہے، عربی میں یہ ’فاختِت‘ بکسر سوم تھا۔ اردو، فارسی میں فاختہ بسکون سوم ہے (فاخ۔ تہ)۔ اس کی گردن میں طوق ہوتا ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے ’فاختہ طوق گلوگیر لیے پھرتی ہے‘۔
الطاف نام کے ایک صاحب ایک اخبار میں اپنا سفرنامہ لکھ رہے ہیں جو یقیناً دلچسپ ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں انہوں نے عرب ملکوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہاں سرکاری عمال ٹالنے کے لیے ’بُقرہ‘ کہہ دیتے ہیں جس کا مطلب ہے کل آئندہ۔ انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ لفظ ’بقرہ‘ نہیں ’بُکرہ‘ ہے۔ عربوں کے دفاتر میں یہ بکرہ بڑے کام کا لفظ ہے۔ سعودی عرب میں مقیم غیر عربوں میں اس حوالے سے IBM کی اصطلاح مشہور ہے یعنی ’ان شا اللہ، بکرہ، معافی‘۔ یہ تینوں الفاظ سائل کو ٹالنے میں کام آتے ہیں۔ ویسے تو عربی میں کل آئندہ کو ’رغد‘ کہتے ہیں، لیکن زبانوں پر بُکرہ ہے جس کے اور بھی کئی مطلب ہیں۔
آئیے، تھوڑا سا اپنے ہی گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (29 مارچ تا 4 اپریل) میں گھروں میں رہنے کا مشورہ دینے والے مضمون نگار کا جملہ ہے ’صلواۃ کمیٹیاں بنائیں گئیں تھی‘۔ اس جملے کے بارے میں کیا کہیں۔ کم از کم اتنا تو خیال کریں کہ دو جمع یعنی ’بنائیں گئیں‘ ایک ساتھ نہیں آتی۔ اور پھر جب جمع ہے تو ’تھی‘ نہیں آئے گا۔ سیدھا سا جملہ ہے کہ ’بنائی گئی تھیں‘۔ اس طرح لکھنے میں کیا قباحت ہے۔ ایک عرصے کی مضمون نگاری کے بعد اب اردو آجانی چاہیے۔ ایک چھوٹے سے جملے میں انشاء کی دو دو غلطیاں!
اسی میگزین میں ایک اور جملہ ہے ’اہل کراچی ساحل کا رخ کرلیتی ہے‘۔ واہ کیا بات ہے۔ اب تک تو عوام کو مونث بنایا جارہا تھا، اب اہل بھی مونث ہوگئے۔ یہ کس کی نااہلی ہے؟ ’اہل‘ عربی کا لفظ ہے اور صاحب کے معنوں میں آتا ہے جیسے اہلِ علم، اہلِ کراچی۔ ان معنوں میں جمع کے لیے مخصوص ہے۔
یہ نہ کہیں گے کہ فلاں شخص اہلِ قلم ہے یا اہلِ علم ہے، بلکہ کہیں گے کہ اہلِ قلم میں سے ہے۔ کسی کو اہلِ علم لکھنے کی غلطی ہم سے بھی ہوچکی ہے جس کی اصلاح ایک قاری نے ترنت کردی تھی۔ اہل کا مطلب ہے لایق، مناسبت اور صلاحیت رکھنے والا جیسے ’جو شخص جس چیز کا اہل ہی نہ ہو وہ اس کی قدر کیا کرے‘۔ اہل کا معنیٰ خلیق و شایستہ بھی ہے۔ اہل اللہ کی ترکیب تو اردو میں عام ہے۔ اسی طرح اہلِ باطن، اہلِ بیت، اہلِ خانہ، اہلِ دل۔ اب تک کوئی شعر نہیں آیا اس لیے برداشت کریں:۔
ہر اک اپنے پہلو میں سمجھا ہے اس کو
سبھی اہلِ دل ہیں مگر دل یہی ہے
اہلِ زبان کے بارے میں حفیظ جالندھری نے کہا ہے
اہلِ زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تری طرح حفیظ درد کے گیت گا سکے
اخبارات میں ایک اور غلطی عام ہوتی جارہی ہے اور وہ ہے ’آئمہ‘۔ پیر کے کچھ اخبارات میں ائمہ مساجد کے حوالے سے یہ آئمہ شائع ہوا ہے۔ ائمہ کے الف پر مد نہیں ہے اور یہ امام کی جمع ہے۔ آمام کی نہیں۔ اب نہ تو ہمارے صحافی بھائی غلطیاں کرنے سے باز آتے ہیں اور نہ ہم تصحیح کرنے سے۔
ایک اور دلچسپ جملہ نظر آتا ہے ’کام کا طریقہ کار‘۔ جملہ بظاہر صحیح ہے لیکن کبھی ’کار‘ پر غور کرکے دیکھیں، اس کا مطلب بھی تو کام ہے۔ اگر صرف ’کام کا طریقہ‘ لکھ دیا جائے تو بات بن جائے گی۔
23 مارچ کے اخبار میں جناب انور شعور کا قطعہ ہے جس کا ایک شعر ہے
لوگ ہیں اپنے اپنے گھروں میں بند
ہے کورونا بھی نیب کے مانند
انور شعور بھی ان شاعروں میں سے ہیں جن کو زبان پر عبور ہے۔ مذکورہ شعر میں انہوں نے ’مانند‘ کا قافیہ بند باندھا ہے اور یہی صحیح ہے، گوکہ لوگوں کی زبان پر مانند کا تیسرا حرف بالکسر ہے جب کہ یہ کسی کی نند کے وزن پر ہے اور مذکر ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ ’پرند‘ بھی مانند کے وزن پر ہے یعنی دوسرا حرف بالفتح ہے گوکہ ہم لوگ را کے نیچے زیر لگا کر پرندہ اڑاتے ہیں۔ پنجابی کا پراندہ بھی شاید پرندے سے ہو کہ یہ بھی چٹیا کے ساتھ اڑتا ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں