• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اپنی شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ پر کوئی اعتراض نہیں، جہانگیر ترین

شائع April 10, 2020
جہانگیر ترین—فائل فوٹو: ڈان نیوز
جہانگیر ترین—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ میں نے کچھ چھپایا نہیں ہے لہٰذا مجھے میری شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ پر کوئی اعتراض نہیں۔

خیال رہے کہ انہوں نے یہ بات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صحافی مہر بخاری کی جانب سے ایک ٹوئٹ کے جواب میں کہی، جس میں سوال کیا گیا کہ کیا چینی پر بنائی گئی جے آئی ٹی بااثر ہے؟ کیوں یہ صرف شوگر ملز کے ایک حصے کو ہدف بنا رہی ہے اور مرکزی شوگر ملز کا آڈٹ نہیں کیا جارہا جن کے مالکان ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہوتے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے۔

اسی ٹوئٹ پر جہانگیر ترین نے جواب دیا اور لکھا کہ مجھے اپنی ملز کے فرانزک آڈٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ میں نے کچھ نہیں چھپایا تاہم مہر بخاری نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے جس کا جواب شوگر انکوائری کمیشن یا جو بھی فیصلہ کرے اس کو دینا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: رپورٹ میں کچھ نہیں ہے،عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں، جہانگیر ترین

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیے کہ فرانزک آڈٹ کے لیے 9 ملز کو منتخب کرنے کا کیا معیار تھا؟

جہانگیر ترین نے پوچھا کہ کیا کمیشن سمجھتا ہے کہ صرف 9 شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ سے وہ پورے پاکستان کی 80 شوگر ملز کی مکمل عکاسی کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ ان کے وزیر اعظم عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں ہیں۔

جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کی 20 فیصد چینی ضرور بناتا ہوں لیکن اس کے پیچھے 30 سال کی محنت ہے، ای سی سی کا اکتوبر 2018 کا اجلاس اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی، اسد عمر سے چینی کی برآمد پر کوئی بات نہیں کی، میرا شوگر مارکیٹ میں 20 فیصد شیئر اور 6 ملیں ضرور ہیں لیکن 74 اور ملیں بھی ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'چینی کا کوئی بحران نہیں تھا، سیزن کے آغاز میں 10 لاکھ ٹن کا اسٹاک صرف پنجاب میں موجود تھا جبکہ ڈھائی 3 لاکھ کے ذخائر دوسرے صوبوں میں تھے، برآمد کرنے سے پاکستان میں چینی کا بحران نہیں آیا'۔

چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ

واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

تاہم انکوائرہ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

کس نے کتنا فائدہ اٹھایا

کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ میں رد و بدل، خسرو بختیار اور حماد اظہر کے قلمدان تبدیل

اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

رپوورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024