دنیا تبدیل ہونے کو ہے، انقلاب آنے کو ہے!
تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ایسے ادوار میں رونما ہو تے ہیں جب حکمرانی کے نظام بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں آکر عوام الناس کی نظروں میں مکمل طور پر ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر انقلابیوں کو زیادہ لمبے اور مشکل فلسفے جھاڑنے نہیں پڑتے بلکہ نظام خود اتنا بے نقاب ہوچکا ہوتا ہے کہ سادہ سی بات بہت بڑے عوامی ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔
مثال کے طور پر پہلی جنگِ عظیم جب آخری مرحلے میں داخل ہوئی اور روس اس جنگ کی تباہ کاریوں سے مکمل بدحالی کا شکار ہوچکا تھا تو لینن نے محض روٹی، امن اور زمین کا نعرہ لگا کر عوام کی ہمدردیاں جیت لیں اور صدیوں پر محیط زار شاہی کا تختہ الٹ دیا۔
ہمارے خطے کی تاریخ میں بھی جنگ سے جنم لینے والے بحران کا بہت بڑا کردار ہے۔ جب 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو دُور دُور تک آثار نہیں تھے کہ برطانوی سامراج کی گرفت ہندوستان سمیت اپنے نو آبادیات پر کمزور پڑے گی، مگر1945ء تک صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی اور انگریز سرکار نے واضح اشارہ دینا شروع کردیا کہ وہ ہندوستان پر اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔ پھر ہندوستانی عوام کے اندر آزادی کے جذبات تیزی سے پھلے اور ٹھیک 2 سال کے اندر برطانوی راج اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا۔
آج انسان بحیثیت مجموعی کورونا وائرس کی شکل میں بہت بڑے بحران سے دوچار ہے۔ فی الوقت یہ کہا بھی نہیں جاسکتا کہ اس بحران کا انجام کیا ہوگا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس کے اثرات دُور رس ہوں گے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں غربت اور افلاس میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں بھوک کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی جبکہ 50 کروڑ انسان غربت میں دکھیلے جاسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک ایسا بحران ہے جو بڑی اور انقلابی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن لازم نہیں کہ بحران کے نتیجے میں عوام دوست تبدیلی ہی آئے، اور نہ ہی آج کی ممکنہ تبدیلی کی شکل وہی ہوگی جو سابقہ صدی میں وقوع پزیر ہوئی۔
فی الحال تو دنیا بھر کی انقلابی قوتیں سوگ منا رہی ہیں۔ گزشتہ روز دنیا کے سب سے نمایاں سوشلسٹ سیاستدان برنی سانڈرز نے امریکی صدارتی مہم کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ ایک عجیب منظر ہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کورونا وائرس کی وجہ سے سنگین تضادات کا شکار ہے اور ایسے ہی موقع پر سانڈرز جیسے سوشلسٹ رہنما پسپا ہو رہے ہیں۔ کیا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بنیادی نوعیت کی تبدیلی ہماری موجودہ دنیا میں نا ممکن ہے؟
اوّل تو اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دورِ حاظر میں انقلابیوں کا نظام کو چیلنج کرنا بے حد مشکل ہے۔ ویسے تو یہ ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے مگر ماضی میں حکمرانی کے نظام کی پہنچ وہ نہیں تھی جو آج ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انسان کا مجموعی شعوری سفر ہے جو آج ہمیں ’انقلاب‘ جیسے الفاظ سے خوفزدہ کرتا ہے۔
آج سے 100 سال پہلے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نہ انتخابات ہوتے تھے، نہ ’قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں‘ کی حکمرانی سماج میں پھیلی ہوئی تھی اور نہ ہی ماس میڈیا آج کے دور کی طرح ذہن سازی کیا کرتا تھا۔ چنانچہ ہم میں سے بیشتر لوگوں کے لیے سیاست کے پیمانے نظام کے بنائے ہوئے حدود کے اندر طے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے حکمرانوں کا تعین ہونا چاہیے، پورے سماج کو قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے اور میڈیا کے تحت ہمیں معلومات تک رسائی ہونی چاہیے۔
یہ سب کچھ ہوتا ضرور ہے اور زیادہ سے زیادہ انسان ’تہذیب‘ کے اس دائرے کے اندر شامل ہوتے بھی جا رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر مہذب سماج میں بھوک، ننگ، ظلم، جبر، جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ اب ماحولیاتی تباہی بھی بڑھتے چلی جارہی ہے۔
ہم میں سے بہت سے ’معتبر‘ لوگ ان حقیقتوں سے عام حالات میں نظر چُرا لیتے ہیں اور اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم براہِ راست کسی دوسرے انسان پر ہونے والے ظلم و جبر کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ تھوڑا بہت انسان دوست بھی ہیں۔ مگر کورونا بحران نے واضح کردیا ہے کہ حکمرانی کا نظام اپنے تمام تر دعوؤں کے برعکس نہ تو انسان دوست ہے اور نہ ’تہذیب یافتہ‘، بلکہ منافع کے گرد گھومتا ہے جس کی وجہ سے جب ایک وبا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو ہم اس خوفناک حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ توپ اور بم کی مالک ریاستوں کے پاس مریضوں کو بچانے والے وینٹیلیٹر اور ڈاکٹروں کو محفوظ رکھنے والے منہ کے ماسک تک نہیں ہیں۔
اس حوالے سے میڈیا کے کردار پر سنجیدہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ سانڈرز کو بار بار ’غیر منتخب شدہ‘ کہا گیا۔ دراصل سانڈرز ان تمام طاقتور کمپنیوں اور خود امریکی ریاستی اسٹیبشلمنٹ کو للکار رہا تھا جو سیاست میں عوام کی ضروریات کی بجائے سرمائے کے تسلط کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ بڑی سرمایہ دارانہ کمپنیوں میں میڈیا کی کمپنیاں بھی شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا مجموعی کردار سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع سے متعلق رہا ہے۔
اس تناظر میں سانڈرز کو ’خطرناک‘ امیدوار کے طور پر پیش کرنا اور یہ رٹ بار بار دہرانا سمجھ میں آتا ہے۔ دسمبر 2019ء کے برطانوی عام انتخابات میں بھی لیبر پارٹی کے قائد اور اعلانیہ سوشلسٹ جیریمی کاربن کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
یعنی کہ مین اسٹریم کی سیاست میں حقیقی متبادل کا منظرِ عام پر آنا اور پھر پیسے کے بل پر چلنے والے انتخابی نظام میں کامیاب ہونا خود انقلاب سے کم نہیں۔ تو کیا سانڈرز اور کاربن جیسے امیدواروں کی حتمی شکست سے ہمیں مایوس ہوکر ہمیشہ کے لیے ہار مان لینی چاہیے؟
اس سوال کے جواب کی تلاش میں اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے سابقہ صدی میں روس اور ہندوستان کی طرف لوٹیں تو حوصلہ افزائی ہوگی۔ ماضی کے یہ تجربات سکھاتے ہیں کہ بحران ایک واقعہ نہیں بلکہ طویل عمل ہوتا ہے جس کے وقت کے ساتھ تمام تر پہلو واضح اور بعد ازاں نئی سیاسی صف بندیاں طے ہوتی ہیں۔
روس میں انقلاب1917ء میں برپا ہوا جب جنگ چوتھے سال میں داخل ہوچکی تھی۔ شروع میں روس کے عوام خود بھی ریاست کے جنگی جنون کا حصہ بنیں، لیکن کروڑوں اموات اور سماج کی مکمل تباہی نے حکمرانوں کے نظریاتی دعوؤں کو بے نقاب کردیا اور عوام انقلابی سیاست کی جانب مائل ہوگئے۔
اسی طرح ہندوستان کے عوام کی اکثریت 200 سال تک اس بات کو قبول کرتی رہی کہ گورے کی غلامی ان کا مقدر تھا، مگر دوسری جنگِ عظیم نے سامراج کے نو آبادیاتی یلغار کو کھوکھلا کردیا اور عوام نے سمجھا کہ انگریزوں کے ’تہذیب یافتہ‘ ہونے کے دعوے محض اپنی طاقت کو برقرار رکھنا اور ہندوستان کے وسائل کو لوٹنے کے بہانے تھے۔
آج سے 10 سال پہلے یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں تھا کہ برطانیہ اور امریکا میں وزارتِ اعظمیٰ اور صدارت کے لیے 2 ایسے امیدوار منظرِعام پر آئیں گے جو اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ کاربن اور سانڈرز نے اپنے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ دارانہ کمپنیوں سے متعلق اور حتیٰ کہ برطانیہ اور امریکا کے دنیا میں سامراجی کردار کے بارے میں کھل کر عوام کو شعور دیا۔
وہ آخری مرحلے پر ناکام ضرور ہوئے مگر انہوں نے بڑے پیمانے پر نوجوان نسل کے اندر مقبولیت حاصل کی۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو آنے والے کل کی سیاست کا رخ طے کریں گے۔
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پزید ممالک میں نوجوان بھاری اکثریت میں ہیں۔ ہمارے ہاں کورونا وبا سے جنم لینے والے معاشی بحران کی وجہ سے ان نوجوانوں کا مستقبل، جو پہلے سے مشکل نظر آرہا تھا، اب کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہوگیا ہے۔ کم از کم سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں بہتری کی گنجائش کا کوئی امکان نہیں۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کی تنقیدی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے بجائے ان کو شاہ دولا کا چوہا بنانا ہی ہمارے تعلیمی نظام اور میڈیا کا مقصد رہا ہے۔ مگر کورونا وائرس کے بحران نے بہت کچھ بہت تیزی سے کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔
لینن کا قول ہے کہ ’کئی دہائیوں میں کچھ نہیں ہوتا اور پھر کئی ہفتوں میں دہائیاں گزر جاتی ہیں‘۔
سانڈرز اور کاربن نہ صرف مغربی ممالک میں بلکہ ساری دنیا میں ابھرنے والی انقلابی سوچ کی اکاسی کرتے ہیں۔ ہاں فرسودہ انتخابی نظام اور میڈیا کے مجموعی کردار میں زیادہ تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری نہیں کہ نوجوان نسل کے نظریاتی رجحانات بنیادی تبدیلی کے حق میں ہوں گے۔ ایک طرف انسان اور ماحول کی سرمائے کی بالادستی کے ہاتھ بربادی ہے تو دوسری طرف امن، انصاف، برابری اور ماحول کے ساتھ توازن کا خواب ہے۔ حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں