قطر نے ورلڈ کپ میزبانی کیلئے رشوت دینے کے امریکی الزامات مسترد کردیے
لندن: قطر میں 2022 کے ورلڈ کپ کے منتظمین نے امریکی جسٹس ڈپارٹمنٹ کے ٹورنامنٹ کی میزبانی کے حصول کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کے الزامات کی سختی سے تردید کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق روس میں 2018 کا فیفا ورلڈ کپ اور 2022 کو قطر میں ہونے والے ٹورنامنٹ کے حوالے سے فیفا کی ایگزیکٹو کی 2010 میں ہونے والی 'متنازع' ووٹنگ سے منعلق افواہیں طویل عرصے سے چل رہی ہیں۔
تاہم پیر کے روز پہلی مرتبہ پراسیکیوٹر نے دونوں ٹورنامنٹس کے بارے میں باضابطہ الزامات عائد کیے۔
مزید پڑھیں: چین کے قومی ترانے پر شور، فیفا کا ہانگ کانگ فٹبال پر جرمانہ
پراسیکیوٹر کے مطابق روس اور قطر کے لیے کام کرنے والے نمائندوں نے فیفا کی ایگزیکٹو کمیٹی کے عہدیداروں کو عالمی فٹ بال کی گورننگ باڈی کے اہم میزبانی سے متعلق فیصلوں میں ووٹ تبدیل کرنے کے لیے رشوت دی۔
قطر کی سپریم کمیٹی برائے ڈلیوری اینڈ لیگیسی (ایس سی) نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک طویل المدتی کیس کا حصہ ہیں، جس کا موضوع 2018/2022 فیفا ورلڈ کپ کی بولی کا عمل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’برسوں تک جھوٹے دعوؤں کے باوجود کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ 2022 کی میزبانی غیر اخلاقی طور پر یا فیفا کے بولی کے قواعد کے بر خلاف حاصل کی، اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکے‘۔
اگرچہ فیفا نے قطر کی بولی کے عمل کے بارے میں میڈیا کے سابقہ الزامات پر ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹورنامنٹ پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم امریکی الزامات نومبر اور دسمبر 2022 کو شیڈول ٹورنامنٹ کی میزبانی پر مزید سوالات کا باعث بنیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کو فنڈز کی فراہمی روک دی
الزامات میں کہا گیا کہ فیفا کی 2010 کی ایگزیکٹو کمیٹی کے جنوبی امریکا کے 3 اراکین، برازیل کے ریکارڈو تیکسیرا، پیراگوئے کے مرحوم نکولس لیوز اور ایک نامعلوم شریک سازشی کارکن نے 2022 ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے قطر کو ووٹ دینے کے لیے رشوت لی تھی۔
ڈپارٹمنٹ آف جسٹس نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس وقت کے فیفا کے نائب صدر جیک وارنر کو روس کو ووٹ دینے کے لیے مختلف شیل کمپنیوں کے ذریعے 50 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے تھے تاکہ وہ ورلڈ کپ کی میزبانی کریں۔
روسی حکام نے منگل کو وارنر کو رشوت دینے کا الزام مسترد کردیا۔
بولی کی قیادت کرنے والے روس کے اعلٰیٰ فٹ بال اہلکار الیکسی سوروکن نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایا کہ ’ہم سمجھ نہیں سکتے کہ یہ کس بارے میں ہے اور کس طرح کا رد عمل دیا جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری کمیٹی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، یہ ایک سازش کی طرح لگتا ہے‘۔